بھارت: کیا مسلمانوں کو ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینا چاہیے؟

ایک بھارتی ٹی وی چینل پر مباحثے کے دوران بی جے پی کی ایک رہنما کی جانب سے پیغمبر اسلام کی مبینہ اہانت کے بعد یہ سوال زیادہ شدت سے پوچھا جارہا ہے کہ کیا مسلمانوں کو ایسے مباحثوں سے شرکت کرنی چاہیے؟

بھارت: کیا مسلمانوں کو ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینا چاہیے؟
بھارت: کیا مسلمانوں کو ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینا چاہیے؟
user

Dw

ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے متعدد بھارتی ٹی وی چینلز پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منظم انداز میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان پر ہونے والے اکثر مباحثوں میں اسلام اور مسلمانوں کی توہین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بحث کا موضوع کچھ بھی ہو، ٹی وی اینکر اور ہندوتوا کی نمائندگی کرنے والے شرکاء بات چیت کا رخ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف موڑ دیتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں گیان واپی مسجد پر بحث ہو رہی تھی۔ بحث میں کئی مسلمان بھی شامل تھے۔ لیکن بی جے پی کی قومی ترجمان نوپور شرما نے اس کا رخ پیغمبر اسلام کی ذات کی طرف موڑ دیا اور بعض ''متنازعہ‘‘ الفاظ کہے۔ آلٹ نیوز نام کے ایک ویب پورٹل کے محمد زبیر نے یہ ویڈیو کلپ اپنی ویب سائٹ پر ڈال دی جو جلد ہی وائرل ہو گئی۔


نوپور شرما کے خلاف کیس درج

نوپور شرما نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہیں اور ان کے خاندان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ دوسری طرف محمد زبیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی تبصرہ کے بغیر صرف ویڈیو کلپ اپنی ویب سائٹ پر ڈالی تھی۔

پیغمبر اسلام کی اہانت اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے لیے بھارت کی کئی مسلم تنظیموں نے نوپور شرما کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرا دی۔ تاہم بی جے پی رہنما کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔


دریں اثنا بھارت میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا مسلمانوں کو ایسے ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینا چاہیے، جن کا مقصد مسلمانوں کی تضحیک کرنا ہو؟۔ نوپور شرما کے ساتھ مباحثے میں شریک مسلم 'دانشوروں' نے اس دوران اپنی وضاحت بھی پیش کی ہے۔

مذکورہ مباحثے میں شامل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر جنید حارث کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ٹی وی چینل پر اسلام، مسلمانوں یا کسی تنظیم کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں بلکہ اسلامی امور کے ماہر کے طور پر جاتے ہیں۔ ان کے بقول وہ کسی مناظرہ کے لیے نہیں جاتے اور بدتمیزی کا جواب بدتمیزی سے نہیں دے سکتے۔


بحث میں شامل ایک دیگر مسلم رہنما ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے باضابطہ ایک بیان جاری کر کے کہا کہ وہ آئندہ ایک ماہ تک ایسے مباحثوں میں حصہ نہیں لیں گے۔

'ایسے مباحثوں میں جانا ہی نہیں چاہیے'

متعدد مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایسے ٹی وی مباحثوں میں جانا ہی نہیں چاہیے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ان مباحثوں کا بنیادی مقصد اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کرنا ہوتا ہے، یہ چینل ہندوتوا کا راگ الاپتے ہیں، یہ مکمل طور پر بی جے پی حکومت کے حامی ہیں اس لیے ان میں جانا ہی نہیں چاہیے۔‘‘


برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیز بھارت کے راجیہ سبھا ٹی وی اور متعدد میڈیا اداروں سے وابستہ رہ چکے قربان علی بھی اس سے متفق ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''بیشتر بھارتی ٹی وی چینلز پر کوئی بامعنی مباحثہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ سب کچھ ٹی آر پی کے لیے ہوتا ہے، جن میں میڈیا کے تمام اخلاقی ضابطوں اور اصولوں کے پرخچے اڑائے جاتے ہیں۔ ایجنڈا پہلے سے سیٹ ہوتا ہے اس لیے کسی بھی سمجھدار اور حساس آدمی کو ان میں جانا ہی نہیں چاہیے اور خاص طور مسلمانوں کو۔‘‘

لیکن مسلمان اپنی بات کیسے پہنچائیں؟

سید قاسم رسول الیاس کہتے ہیں، ''یہ خام خیالی ہے کہ ہم نہیں جائیں گے تو ہماری بات نہیں پہنچ پائے گی۔ دراصل یہ پروگرام اس کے لیے ہوتے ہی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو بلا کر وہ صرف اپنی غیر جانبداری دکھانا چاہتے ہیں لیکن اصل مقصد اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر مسلمان ان مباحثوں میں حصہ نہ لیں تو کم از کم ایسے چینلز کا اعتبار ضرور ختم ہو گا اور یہ ایک بڑی بات ہو گی۔ اس طرح کے مباحثوں سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ آپ کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘


قربان علی کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مسلمان اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔ انہوں نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا بھی مشورہ دیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کورونا کے دوران تبلیغی جماعت سے متعلق بعض ٹی وی چینلز کے خلاف کی جانے والی کامیاب کارروائی کی مثال دی۔

قربان علی کا کہنا تھا، ''مسلمانوں کو ایک جمہوری ملک میں آئینی ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے۔ اگر انہیں لگتا ہے کہ کوئی ٹی وی چینل اسلام یا مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے تو اس کے خلاف قانونی لڑائی لڑیں، اس کے ساتھ بحث میں شامل نہ ہوں کیونکہ اس کا نتیجہ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔‘‘


نام و نمود کا چسکا؟

بھارت میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ جو مسلمان ٹی وی چینلز کے مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں ان کا مقصد پیسہ کمانا اور نام و نمود حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ قاسم رسول الیاس کا کہنا تھا کہ پیسے کی بات تو بہت زیادہ درست نہیں ہے، گوکہ بعض چینل فیس کے طور پر کچھ رقم ضرور ادا کرتے ہیں،''لیکن یہ بات کسی تک صحیح ہے کہ نام و نمود کی خواہش کچھ لوگوں کو ٹی وی چینل کے لایعنی مباحثوں میں لے جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ چینل پر جائیں گے تو ملک بھر میں ان کی شہرت ہو جائے گی۔‘‘

قربان علی بھی اس سے متفق ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ متنبہ کرتے ہیں، "ٹی وی چینلز والے چاہتے ہیں کہ صرف جاہل مطلق مسلمانوں کو بلایا جائے اور انہیں ذلیل و خوار کیا جائے۔اس کے لیے کچھ ٹی وی چینلز پیسے بھی دیتے ہیں۔"


اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا اصل حل ہے

غیر مسلم دانشورو ں کا خیال ہے کہ بھارت میں مسلمانوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی اور موجودہ صورت حال اسی کا نتیجہ ہے۔ بنگلہ زبان کے معروف مصنف ملن دتہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ اور پیغمبر اسلام کے خلاف کوئی غلط اور متنازعہ بات کہے گا تو مسلمان مشتعل ہو جائیں گے اور دراصل بی جے پی یہی چاہتی بھی ہے۔ وہ اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔‘‘

ملن دتہ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق ہندوؤں کو بتائیں کیونکہ اس حوالے سے ہندوؤں کی معلومات نہ صرف بہت کم ہے بلکہ بہت ساری غلط فہمیاں بھی موجود ہیں۔ ان تک اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں درست معلومات نہیں پہنچی ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ معلومات پہنچائیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔