عمران خان کی گرفتاری: شہر شہر احتجاج، نگر نگر مظاہرے
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

ان احتجاجی مظاہروں میں شریک کارکنوں نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ کئی شہروں میں مشتعل احتجاجی کارکنوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، سرکاری گاڑیاں نذر آتش کردیں اور ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر دیں۔
لاہور،کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں میں پولیس اور احتجاجی کارکنوں میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ملک بھر میں جاری ان احتجاجی مظاہروں میں کچھ کارکنوں کی ہلاکت کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماوں نے بڑے پیمانے پراپنے کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان کے زخمی ہونے کا دعوی کیا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کی حکومت سے اس حوالے سے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ اور ان اطلاعات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی جا رہی۔
بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے پنجاب بھر میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گیے ہیں اور بدھ کے روز ہونے والے لاہور بورڈ کے امتحانات بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ ادھر برٹش کونسل، یونیورسٹی آف لندن اور کیمبرج یونیورسٹی نے بھی اپنے امتحانات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
ان احتجاجی سرگرمیوں کے دوران منگل کی شام کو رات گئے تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹر نیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔ پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کرکے جلوسوں، جلسوں اور احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لاہور میں رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مختلف شہروں میں احتجاجی کارکنوں نے کنٹونمنٹ ایریاز کی طرف مارچ کیا اور ان علاقوں میں نعرے بازی کرتے ہوئے املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔
لاہور میں ایک عسکری شخصیت کا گھر بھی احتجاجی کارکنوں کے غصے کی زد میں آیا۔ فورٹریس سٹیڈیم سے لے کر راحت بیکرز چوک کے آس پاس کے علاقوں میں جگہ جگہ جلائی جانے والی گاڑیوں کا ملبہ پڑا ہوا ہے اور سڑکوں پر اینٹیں اور پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ عزیز بھٹی روڈ پر واقع سی ایس ڈی کا شاپنگ مال پر بھی احتجاجی کارکنوں نے دھاوا بولا۔ لاہور میں احتجاجی کارکنوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی رہی اور رات گئے یہ مظاہرین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما منزہ حسن نے بتایا کہ احتجاجی کارکن شدید غم و غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں کنٹونمنٹ کے علاقے میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق احتجاجی کارکنوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عمران خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔
ادھر لاہور میں زمان پارک، مال روڈ، جی پی او چوک، اکبر چوک، لبرٹی چوک، فیصل ٹاون اور ملتان روڈ پر چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے پارٹی پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے اور حکومتی شخصیات کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ لاہور میں سڑکوں پر معمول سے بہت کم ٹریفک دیکھنے میں آئی، مارکیٹیں وقت سے پہلے بند ہو گئیں۔ جبکہ میٹرو بس سروس کو بھی بند کر دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کی رائے
ممتاز عسکری تجزیہ کار فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالات حکومت کی نالائقی کی وجہ سے خراب ہوئے۔ حکومت کا عمران خان کی گرفتاری کے لئے پولیس کی بجائے رینجرز کو استعمال کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ ان کے بقول عمران خان کی گرفتاری پر جو خوفناک ردعمل آیا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے اپیل کی کہ عمران خان اپنے کارکنوں کو عسکری مقامات سے دور رہنے اور اشتعال انگیز احتجاج سے باز رہنے کی اپیل کریں۔ دوسری طرف حکومت بھی ہوش کے ناخن لے اور جھوٹے مقدمات ختم کرکے انتقامی کارروائیاں بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور ملک کے مقبول ترین لیڈر کو جس طرح تشدد کرکے گرفتار کیا گیا ہے اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی ملک کو اقتصادی بہتری اور استحکام کی طرف لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست دان مل بیٹھ کر سنجیدہ بات چیت کے ذریعے ملکی مسائل کاکوئی حل نکالیں وگرنہ حالات بہت زیادہ خراب بھی ہو سکتے ہیں۔
سٹی فورٹی ٹو نیوز گروپ سے وابستہ پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خان صاحب کی طرف سے اداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی اور ان کے غیر مفاہمانہ رویے کی وجہ سے حالات اس حال تک پہنچے۔
ان کے بقول احتجاجی مظاہروں میں شریک نوجوانوں کی تعداد غیر معمولی نہیں تھی۔ ایجنسیوں کو پہلے سے علم تھا کہ احتجاجی کارکنوں کو کنٹونمنٹ کی طرف بھیجا جائے گا اور وہ حساس عمارتوں پر ہلہ بولیں گے، اس لئے انہوں نے کسی بھی جگہ پر ان کا راستہ نہیں روکا لیکن ان تمام کارکنوں کی ویڈیوز بن گئی ہیں اور انہیں اپنی قانون شکنی کا حساب دینا ہوگا۔
نوید چوہدری کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تحریک جاری رہی تو پھر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے بیانیے کے حق میں اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہوں گی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔