براعظم افریقہ میں پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کی چاندی

براعظم افریقہ کے کئی ملکوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں حکومتوں اور عوام کے لیے انتہائی پریشان کن ہیں۔ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روسی اور مغربی ممالک کی نجی سکیورٹی کمپنیاں وہاں قدم جما رہی ہیں۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

افریقی براعظم کے ساحل خطے کے ممالک مالی، نائجر اور برکینا فاسو میں گزشتہ برس دہشت گردانہ حملوں اور نسلی تعصب پر مبنی پرتشدد کارروائیوں میں پانچ ہزار کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ فرانسیسی فوج اسی علاقے میں 'آپریشن برخانے‘ اگست سن 2014 سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

رواں برس گرمیوں کے شروع ہونے پر فرانس نے مزید پانچ ہزار فوجی اور پیشہ ور مسلح افراد (مرسینریز) کو متاثرہ علاقے میں متعین کیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ نئی تعیناتی میں بیشتر افراد کو رواں برس کے اختتام سے قبل واپس بلا لیا جائے گا۔


فارن لیجن طرز کی نجی سکیورٹی کمپنیاں

یہ امر اہم ہے کہ ساحل علاقے میں فرانسیسی حکومت نے صرف اپنے فوجی ہی تعینات نہیں کر رکھے بلکہ ایک پرائیویٹ سکیورٹی تنظیم کے بھی ہزاروں پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد (مرسینریز) کی بھی تعیناتی کی گئی ہے۔ ان افراد کا تعلق دنیا کے ایک سو پچاس ملکوں سے ہے اور یہ جنگ زدہ علاقوں میں جانے سے گبھراتے نہیں بلکہ گہری دلچسی رکھتے ہیں۔ ان باوردی مسلح افراد کا تعلق کئی پرائیویٹ انٹرنیشنل سکیورٹی ایجنسیوں سے ہے۔

ایسی کمنیوں کی سرخیل فارن لیجن نامی تنظیم کی بنیاد سن 1831 میں رکھی گئی تھی۔ بظاہر یہ تنظیم اِس وقت کسی حد تک بکھر چکی ہے اور بہت کم شناخت اور ساکھ باقی بچی ہے۔ لیکن سن 1990 کی دہائی کے آخری مہینوں میں فوج کی طرز کی سکیورٹی کمپنیوں کو عروج حاصل ہونا شروع ہوا۔ ان سکیورٹی کمپنیوں میں سابقہ فوجی بھی شامل ہیں۔


سکیورٹی کمپنیوں کا دائرہ

ایسی نجی سکیورٹی کمپنیاں راڈار سے نگرانی کرنے کے علاوہ جاسوس طیاروں کی پروازیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان سکیورٹی کمپنیوں کے افراد کی بنیادی ضروریات کو برقرار رکھنے کے لیے سپلائی کمپنیوں نے بھی اس کاروبار میں پاؤں جما لیے ہیں۔ ایسی سپلائی والی کمپنیاں میڈیکل کیئر، کچنز اور کپڑے دھونے کی سروسز فراہم کرتی ہیں اور یہ کئی ممالک میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ یہ اسلحے کی فراہمی بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ٹینک سے کلاشینکوف تک

بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی بڑی نجی سکیورٹی کمپنیاں تنازعات کے علاقے میں متحرک گروپوں کو اسلحے کی انٹرنیشنل بلیک مارکیٹ سے ہتھیار خرید کر مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ہر قسم کا ہتھیار فراہم کر سکتی ہیں اور اس میں ٹینک سے لے کر خود کار مشین گنز بھی شامل ہیں۔


روس کی کئی سکیورٹی ایجنسیاں بھی افریقی ملک میں متحرک ہیں اور انہیں حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یہ کمپنیاں ہیلی کاپٹر بھی فراہم کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔ ان کمپنیوں سے متحارب فریق اپنے علاقوں میں پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے خام تیل اور اہم معدنیات کے عوض ہتھیار اور بارودی سرنگیں حاصل کرتے ہیں۔

حکومتوں کا کردار

ہیربیرٹ وولف امن اور تنازعات کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض حکومتیں بھی ان کمپنیوں کو اپنے لیے استعمال کرتی ہیں اور ایسا کرنا اصل میں بنیادی ذمہ داریوں سے پہلوتہی ہے۔ اس کی مثال میں ہیربیرٹ وولف نے امریکا اور برطانیہ کا ذکر کیا، جنہوں نے ایسی کمپنیوں کے ملازمین کو کئی تنازعات کے شکار ملکوں اور علاقوں میں متعین کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔


وولف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے ممالک میں اب روس بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے بھی یوکرائن اور شام میں ایسا کرنے سے گریز نہیں کیا۔ وولف نے واضح کیا کہ ایسی سکیورٹی کمپنیوں کے اقدامات کی ذمہ داری انجام کار متعین کرنے والی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں ان پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کو استعمال کرتی ہیں۔

روسی ماڈل

روس کے صدرد ولادیمیر پوٹن نے ملکی سکیورٹی کمپنیوں کا سہارا لے کر شام اور بعض افریقی ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر رکھا ہے۔ ایک روسی کمپنی واگنر کے ملازمین کو لیبیا اور معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ملک سینٹرل افریقن ریپبلک (CAR) میں تعینات کر رکھا ہے۔ ان دونوں ملکوں یعنی لیبیا اور وسطی افریقی جمہوریہ میں داخلی انتشار اور پرتشدد حالات نے ایک خونی خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ براعظم افریقہ میں روس نے ڈھکے چھپے اور کھلے عام اپنی عسکری حیثیت کی دھاک بٹھا لی ہے۔


روس کے معاہدے

روس نے کم از کم انیس فوجی معاہدے کئی افریقی ملکوں سے بھی کیے ہیں۔ جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو کی نگرانی میں چلنے والے ادارے کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن کے سربراہ بینو میوشلر کا کہنا ہے کہ ایک جانب روس کئی افریقی ملکوں کو فوجی مہارت فراہم کر رہا ہے تو دوسری جانب انہیں اسٹریٹیجک علم کی ترسیل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ میوشلر کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس ان ملکوں کو ہتھیار کی فراہمی کے ساتھ فوجی کارروائیوں کی ہدایات بھی دیتا ہے۔

سخت مسابقتی عمل

افریقی براعظم میں نجی سکیورٹی کمپنیاں ایک دوسرے کی سخت حریف ان معنوں میں ہیں کہ انہیں شدید مسابقت کا سامنا ہے۔ ساحل علاقے میں امریکا کی فوجی موجودگی بھی ہے۔ اس کے لیے خاص کنٹریکٹرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ امریکا کی ایسی ایک بلیک واٹر نامی سکیورٹی ایجنسی کو عراق میں خاصی بدنامی حاصل ہوئی تھی۔ امریکا نے افغانستان میں بھی ایسی کئی نجی سکیورٹی ایجنسیوں کی مدد حاصل کی، جن پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔


ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کی اکیس نجی عسکری کمپنیاں شمالی افریقہ اور ساحل میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور بھی ہیں، جو مالی فوائد حاصل کر رہی ہیں۔ دوسری جانب امریکی کمپنیوں کو روسی سکیورٹی تنظیموں کا سامنا ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ نجی سکیورٹی کمپنیوں کے حوالے سے امریکا میں 'سرکاری پالیسی‘ موجود ہے۔

اقوام متحدہ کا ایک گروپ ایسی نجی سکیورٹی کمپنیوں پر پابندی کا خواہشمند ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ گروپ ایسی نجی کمپنیوں کو قانونی دائرہ کار میں لانا چاہتا ہے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کے صورت میں انہیں جوابدہ بنایا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔