کھانا مانگنے والی بچی کو 38 برس تک غلام بنا کر رکھا گیا

بھوک کی ماری کم سن بچی ماڈالینا نے جس گھر کے دروازے پر کھانے کے لیے دستک دی تھی، اسے اسی گھر میں 38سال تک غلام بنا کر رکھا گیا۔ اسے رہائی مل گئی ہے لیکن اس کی المناک داستان پر پورا برازیل شرمندہ ہے۔

کھانا مانگنے والی بچی کو اڑتیس برس تک غلام بنا کر رکھا گیا
کھانا مانگنے والی بچی کو اڑتیس برس تک غلام بنا کر رکھا گیا
user

ڈی. ڈبلیو

ستائیس نومبر 2020ء کے روز لیبر انسپکٹر ہُمبیرٹو کاماسمیے اور ان کے ساتھیوں نے ایک عدالت کی طرف سے اجازت لینے کے بعد ایک گھر کی تلاشی لی۔ عام طور پر وہ صرف فیکٹریوں اور زرعی فارموں کی تلاشی لیتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ٹارگٹ ایک گھر تھا، وہ بھی برازیل کے وفاقی صوبے میناس گیرائس میں اور مقصد غلاموں کے سے حالات میں جبری مشقت کرنے والے ایک انسان کو رہا کروانا۔

یہ گھر پاتوس دے میناس نامی شہر میں ایک یونیورسٹی پروفیسر کا گھر تھا اور ہمسایوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس گھر میں کچھ نا کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔ ہمسایوں نے دیکھا تھا کہ جب بھی گھر کا مالک اپنی ملازمہ ماڈالینا کو کسی سے بھی بات کرتے دیکھتا، تو شدید ناراض ہوتا اور ماڈالینا سہم کر کانپنے لگتی تھی۔ پھر اس پروفیسر کے ہمسائے اس وقت اور بھی پریشان ہو گئے، جب ماڈالینا نے ایک دن ان کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھی گئی چٹائی کے نیچے ایک چھوٹا سا تحریری پیغام اس منت کے ساتھ چھوڑا کہ اسے بطور خاتون حفظان صحت سے متعلق چند اشیاء کی ضرورت ہے اور بہت تھوڑی سی رقم کی بھی۔ اس طرح ماڈالینا کے حالات زندگی اور بھی مشکوک ہو گئے تھے۔


پانچ مربع میٹر رقبے والا کمرہ

لیبر انسپکٹر کاماسمیے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پروفیسر کے گھر پر چھاپا مارا، تو سب کچھ واضح ہو گیا۔ ماڈالینا وہاں غلاموں کی سی زندگی گزار رہی تھی۔ اسے نا کوئی مناسب اجرت ادا کی جاتی تھی اور نا ہی ملازمہ کے طور پر آمدنی کی حوالے سے اس کا کوئی ٹیکس ریکارڈ تھا۔ اس کے علاوہ اس کے کام کاج کے کوئی باقاعدہ طے شدہ اوقات بھی نہیں تھے اور اسے سال بھر کوئی چھٹی بھی نہیں ملتی تھی۔ ماڈالینا پروفیسر دالٹن ریگیرا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتے ہوئے ایک ایسے کمرے میں رہتی تھی، جس کا رقبہ صرف پانچ مربع میٹر تھا اور جس میں کوئی کھڑکی بھی نہیں تھی۔


آج اس افریقی نژاد برازیلین خاتون شہری کو رہائی ملے چھ ہفتے ہو گئے ہیں۔ اس نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ اس کا سونے کا کمرہ کمرہ کم اور جیل زیادہ تھا۔ اب وہ ایک ایسی رہائش گاہ میں رہتی ہے، جہاں اس کی سماجی بحالی کے لیے اس کی معاشرتی اور نفسیاتی مدد بھی کی جا رہی ہے۔

46 میں سے 38 سال غلاموں کی سی زندگی کے


آج ماڈالینا کی عمر 46 برس ہے۔ اسے کمر میں مستقل اور شدید درد رہتا ہے۔ 38 برس قبل ایک گھر کے دروازے پر کھانے کے لیے دستک دینے والی اس بھوکی بچی کو اسی گھر میں غلام بنا لیا گیا تھا، اس بچی کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اس دن کے بعد کی تقریباً چار دہائیاں اس بچی کی زندگی کے انتہائی تکلیف دہ برس ثابت ہوئی تھیں۔

اپنی زندگی کا تقریباً 80 فیصد حصہ غلامی جیسے حالات میں گزارنے پر مجبور کر دی گئی ماڈالینا کا کہنا ہے، ''مجھے اب بہت کچھ نیا سیکھنا ہے۔ بینک کی کیش مشین سے رقم کیسے نکلواتے ہیں، کوئی موبائل فون کیسے استعمال کیا جاتا ہے اور مجھے تو ابھی تک یہ ہی سمجھ نہیں آ رہا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے اور کیوں؟‘‘


ماضی میں غلامی کے دور کی میراث آج بھی باقی

برس ہا برس تک قید جیسے حالات میں جبری مشقت سے رہائی ملنے کے چند ہفتے بعد اکیس دسمبر 2020ء کو ماڈالینا کا ایک تفصیلی انٹرویو ٹی وی گلوبو نامی نشریاتی ادارے سے نشر ہوا تھا۔


اس انٹرویو کو دیکھ کر پورے کا پورا برازیلین معاشرہ شرمندہ ہو گیا تھا۔ اس لیے کہ ماڈالینا کی المناک کہانی سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس ملک میں ماضی میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کی روایت کی باقیات اب بھی پائی جاتی ہیں اور اس معاشرے میں نسل پرستی کی جڑیں بھی بہت گہری ہیں۔

برازیل میں آج بھی ساڑھے تین لاکھ انسانوں کی زندگی غلاموں کی سی


انسانی حقوق کی تنظیم 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کے مطابق برازیل میں آج بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد انسان ایسے ہیں، جو غلاموں کے سے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا دن رات استحصال کیا جاتا ہے۔

غلاموں جیسے حالات میں مشقت کرنے والے انسانوں کو رہائی دلوانے کے لیے کوشاں 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کے مطابق یہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد برازیلین باشندے ایسے ہیں، جو نا تو اپنا استحصال کرنے والے عناصر کے چنگل سے فرار ہو سکتے ہیں اور نا ہی ان کے پاس دھمکیوں، تشدد، جبر، دھوکا دہی اور طاقت کے غلط استعمال کے خلاف اپنا دفاع کر سکنے کا کوئی راستہ ہوتا ہے۔


ماڈالینا نے مدد کیوں نا طلب کی؟

اس سوال کے جواب میں اتنے برس گزر جانے کے باوجود ماڈالینا نے شروع میں ہی اپنے لیے کسی سے کوئی مدد کیوں طلب نا کی، اس 46 سالہ افریقی نژاد برازیلین خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے علم تھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے اور ناانصافی ہے۔ لیکن میں بہت خوف زدہ تھی۔ مجھے دھمکیاں دی جاتی تھیں اور مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔ اور پھر میرے جیسی کسی لڑکی کو یہ علم کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پولیس کے پاس جا کر اپنی کوئی شکایت کس طرح درج کروائے؟‘‘


26 سال کی عمر میں 78 سالہ مرد سے شادی

ماڈالینا کو یہ بات کئی برس بعد پتا چلی کہ اسے پروفیسر ریگیرا کے خاندان نے کاغذ پر بظاہر گود لیا ہوا تھا اور حکام سے اس کی تعلیم اور اچھی زندگی کے وعدے بھی کیے گئے تھے۔ مگر وہ تو برس ہا برس تک کپڑے او برتن دھوتی رہی اور صفائیاں ہی کرتی رہی تھی۔ 2002ء میں جب وہ 26 سال کی تھی، تو پروفیسر ریگیرا کے خاندان نے کاغذ پر اس کی شادی ایک 78 سالہ شخص سے کر دی تھی۔


دو سال بعد اس کا شوہر، جو پروفیسر ریگیرا کا رشتے دار ہی تھا، انتقال کر گیا، تو مرنے والے کی بیوہ کے طور پر اس کی پینشن ماڈالینا کو ملنے کے بجائے پروفیسر ریگیرا کے بینک اکاؤنٹ میں جاتی رہی۔ برازیل کے ایک اخبار کے مطابق ماڈالینا کے شوہر کی جو پینشن اس کی بیوہ کے طور پر ماڈالینا کو ملنا چاہیے تھی، اس سے پروفیسر ریگیرا نے اپنی ایک بیٹی کی میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات پورے کیے۔

ماڈالینا کی خواہش


لیبر انسپکٹر کاسماسمیے کے مطابق جب سے انہوں نے ماڈالینا گوردیانو کو رہائی دلوائی ہے، اس دن کے بعد سے وہ برازیل کے اسی صوبے میناس گیرائس میں مزید پانچ ایسی گھریلو ملازماؤں کو رہائی دلوا چکے ہیں، جو مختلف لوگوں کے گھروں میں غلاموں کے سے حالات میں مشقت کرنے پر مجبور تھیں۔

جہاں تک ماڈالینا کی اپنے مستقبل سے متعلق خواہش کا تعلق ہے، تو اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنی آئندہ زندگی پر توجہ دینا چاہتی ہوں۔ میں ان لوگوں سے دور رہنا چاہتی ہوں، جنہوں نے ماضی میں میرے ساتھ ظلم کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنی تعلیم مکمل کروں اور کچھ سیر وسیاحت بھی۔ اور ہاں، رہنے کے لیے اگر اپنا کوئی گھر ہو، تو یہ تو بہت ہی اچھی بات ہو گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔