پیرس کے پاس پولیس کے ہاتھوں 17 سالہ نوجوان کی ہلاکت کے بعد بدامنی

متاثرہ نوجوان کے اہل خانہ کے وکلاء نے پولیس کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ ڈرائیور نے انہیں گاڑی ٹکرانے کی دھمکی دی تھی اس لیے انہوں نے اس پر فائرنگ کی۔

پیرس کے پاس پولیس کے ہاتھوں 17 سالہ نوجوان کی ہلاکت کے بعد بدامنی
پیرس کے پاس پولیس کے ہاتھوں 17 سالہ نوجوان کی ہلاکت کے بعد بدامنی
user

Dw

فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافاتی علاقے نانٹیرے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان رات بھر جھڑپیں ہوتی رہیں۔ گزشتہ روز اسی علاقے میں پولیس افسر نے ایک 17 سالہ ڈیلیوری ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کی گولی سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات رکاوٹیں کھڑی کیں، جن کو منشتر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیل داغے۔

نانٹرے میں پراسیکیوٹرز کے دفتر نے بتایا ہے کہ ڈرائیور پر فائرنگ کرنے والے پولیس افسر کو قتل کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین کا کہنا ہے کہ پولیس پر نگرانی کرنے والے ادارے (آئی پی جی این) نے اس واقعے کی اندرونی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔


علاقے میں بدامنی اور مظاہروں کا سلسلہ منگل کی شام کو ہی نانٹیرے پولیس اسٹیشن کے باہر شروع ہو گئے تھے جو بعد میں پڑوسی شہروں تک پھیل گئے۔ اس دوران مانٹیس لا جولی میں ایک ٹاؤن ہال کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا، تاہم انہیں جلد ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکام نے بتایا ہے کہ اب تک 15 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

کشیدگی میں اضافہ اور مظاہرین کی گرفتاریاں

یہ مظاہرے منگل کے روز اس وقت شروع ہوئے جو پولیس فائرنگ کے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی۔ فرانسیسی خبر رساں اداروں نے اس ویڈیو کی تصدیق بھی کی ہے، جس میں دو پولیس افسران کو ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرا پولیس والا اپنے ہتھیار سے کھڑکی سے ڈرائیور کی جانب نشانہ لے رہا ہے اور جب ڈرائیو گاڑی روکنے کے بجائے، چلنے لگتا ہے، اسی وقت بہت ہی قریب سے پولیس اس پر فائرنگ کرتی ہے۔


نوجوان ڈرائیور کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے پولیس کے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ چونکہ ڈرائیور نے ان پر گاڑی چڑھانے کی دھمکی دی تھی اس لیے انہیں جان کا خطرہ لاحق تھا ہے، اس لیے انہوں نے اس پر فائرنگ کی۔ مذکورہ کار میں دو دیگر مسافر بھی سوار تھے، جس میں سے ایک کو تھوڑی دیر کے لیے حراست میں لیا گیا اور پھر بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ پولیس فرار ہونے والے دوسرے مسافر کو تلاش کر رہی ہے۔

واقعے پر سیاسی رد عمل

بائیں بازو کے سیاست دان ژاں لوک میلنشون نے کہا کہ پولیس ریاست کی اتھارٹی کو بدنام کر رہی ہے اور اس محکمے میں زمینی سطح پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں کہا، ''فرانس میں سزائے موت کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔ کسی پولیس افسر کو اپنے دفاع کے علاوہ قتل کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔''


دریں اثنا قدامت پسند جماعت ریپبلکنز کے صدر ایرک سیوٹی نے پولیس کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ سیوٹی نے کہا کہ پولیس ''ہماری اجتماعی حفاظت کے محافظ'' ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''اس طرح کی افراتفری کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔'' واضح رہے کہ امریکہ کے مقابلے فرانس میں پولیس کی جانب سے اس طرح کے مہلک اسلحوں کے استعمال کا چلن بہت کم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔