انڈونیشیا: نئے قانون کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلق جرم قرار

انڈونیشیا میں ترمیم شدہ وسیع تر فوجداری قوانین آج سے نافذ العمل ہوجائیں گے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے حاصل جمہوری آزادیوں کو ایک بار پھر پس پشت ڈال سکتے ہیں۔

انڈونیشیا: نئے قانون کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلق جرم قرار
انڈونیشیا: نئے قانون کے تحت غیر ازدواجی جنسی تعلق جرم قرار
user

Dw

فوجداری قوانین یا تعزیرات میں جو ترامیم کی گئی ہیں ان میں سب سے زیادہ متنازع قانون غیر ازدواجی جنسی تعلق کے حوالے سے ہے جس کا ارتکاب کرنے والے کو ایک برس تک جیل کی سزا ہوسکتی ہے۔ غیر شادی شدہ جوڑوں کے ایک ساتھ رہنے، صدر مملکت کی توہین کرنے، قومی آئیڈیالوجی کے خلاف خیالات کا اظہار کرنے کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔

انڈونیشیا کے ایوان نمائندگان کے ڈپٹی اسپیکر صوفمی داسکو احمد اور قوانین پر نظرثانی کرنے والے پارلیمانی کمیشن کے سربراہ بمبانگ ووریانتو نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نئے قوانین کی توثیق کے لیے منگل کے روز پارلیمان کا خصوصی اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔ حکومت اور پارلیمان کے نمائندے قوانین کے مسودے پر متفق ہو گئے ہیں، جس کے بعد ان کے منظور کر لیے جانے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔


نئے قوانین کی مخالفت

نوآبادیاتی دور کے ملکی قوانین پر نظر ثانی کا کام کئی دہائیوں سے چل رہا تھا اور حالیہ برسوں میں اس کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے بھی ہوئے تھے تاہم رواں برس اس معاملے پر عوامی سطح پر بڑی حد تک خاموشی رہی۔

پارلیمان نے ستمبر 2019 میں ہی نئے تعزیرات کی توثیق کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ملک گیر مظاہروں اور شہری آزادیوں کو لاحق خطرات کے مدنظر اس کی منظوری موخر کر دی گئی۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی جمہوریت کے قانون سازوں نے بعد میں کچھ قوانین اور متنازع دفعات کو نرم کر دیا۔


بعض قوانین میں نرمی؟

ترمیم شدہ دفعات میں غیر ازدواجی جنسی تعلق اور غیر شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ رہنے کے متعلق شکایات اب صرف انتہائی قریبی رشتہ دار مثلاً میاں یا بیوی، والدین یا بچے ہی درج کراسکیں گے۔ جب کہ صدر کی توہین کے متعلق شکایت صرف صدر مملکت کی جانب سے ہی درج کرائی جاسکے گی۔

تاہم قانونی ماہرین اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم گروپوں کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ انڈونیشیا جنتیرا اسکول آف لا سے وابستہ بیوتری سوسانتی کا کہنا تھا،"یہ نئے فوجداری قوانین انڈونیشیا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہیں۔" انہوں نے کہا، "ریاست اخلاقیات کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔ قدامت پسند اور آزاد انڈونیشیا کے درمیان امپائرنگ کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔"


انہوں نے کہا، "روایتی قانون، اہانت، اطلاع دیے بغیر احتجاج کرنے اور قومی آئیڈیا لوجی سے مختلف خیالات کا اظہار کرنے سے متعلق دفعات قانونی لحا ظ سے غیر واضح ہیں کیونکہ ان کی مختلف تشریحات کی جا سکتی ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔