بچوں کا استحصال اور ایرانی قانون 

ایک نامعلوم ایرانی نے سوشل میڈیا پر سترہ برس قبل اپنے استاد کے ہاتھوں اپنے جنسی استحصال کا ذکر کیا ہے۔ اُس کو سوشل میڈیا پر استحصال زدہ افراد کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے۔

بچوں کا استحصال اور ایرانی قانون میں سقم
بچوں کا استحصال اور ایرانی قانون میں سقم
user

ڈی. ڈبلیو

اس نامعلوم ایرانی نے اپنے جنسی استحصال کا احوال سوشل میڈیا پر اُس وقت بیان کیا جب اُس نے جنوبی ایرانی شہر شوشتر میں ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ مقامی اخبار میں پڑھا۔ شوشتر شہر میں ایک نفسیاتی مسائل کے حامل ایک باغ بان یا گارڈنر نے کئی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے کے بعد اُن کی تصاویر بھی بنائیں۔ ایک ایرانی میگزین نے ان متاثرہ بچوں کی تصاویر بھی شائع کر دیں ہیں۔

ایران کے بارے میں ایسا عام تاثر ہے کہ وہاں جنسی استحصال کے واقعات کو عام نہیں کیا جاتا۔ جنسی استحصال کے کسی واقعے میں اگر کوئی صاحب حیثیت ملوث ہو جائے تو وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس واقعے کو چھپانے یا ختم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک مثال قران کی قرأت کرنے والے ایک قاری سعید طوسی کی ہے۔ سن 2016 میں اُس پر سولہ کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا۔ ان الزام لگانے والوں نے تمام شواہد کے ساتھ عدالت میں اپنا مقدمہ لڑا۔ عدالتی کارروائی کے دوران قاری طوسی کے خلاف شواہد بھی پیش کیے گئے لیکن کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ قاری طوسی کے روابط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰٓ علی خامنہ ای کے ساتھ ہیں۔ جنسی استحصال والے لڑکوں کا مقدمہ اعلیٰ ترین عدالت تک گیا لیکن انجام کار رواں برس فروری میں ایرانی چیف جسٹس نے اس کارروائی کو لغو قرار دے کر ختم کر دیا۔

ایرانی چیف جسٹس کے نمائندے کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ مغربی ممالک کی طرح ایران میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں تسلسل نہیں ہے اور اس ملک میں چند واقعات کے رونما ہونے کو ثقافتی اور مذہبی رویوں کے تناظر میں لیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مبہم سا بیان ہے اور اس کے جواب میں ایرانی پارلیمانی رکن محمود صادقی نے ٹوئٹ کیا کہ طوسی کے مقدے کو ختم کرنا بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو حوصلہ دینے کے مترادف ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ایرانی عدالتی نظام میں جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کا ذکر ملتا ہے لیکن ایسے واقعات کو بہت قلیل تعداد میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک ایرانی ماہر قانون محمد محبی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایرانی قانون شریعت کے تابع ہے اور اسلامی شریعت میں کسی بچے کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کے حوالے سے وضاحت دستیاب نہیں۔ اسی تناظر میں ایران کی اپوزیشن نے ملکی پارلیمنٹ سے بحوں کو جنسی استنحصال سے محفوظ رکھنے کی قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔

شبنم فان ہائن (عابد حسین)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔