’’بے چہرہ - جسم فروش خواتین‘‘ کے عنوان سے نمائش

جرمنی کے شہر منہائم کے میوزیم میں جسم فروش خواتین یا جنسی کارکن خواتین کی روز مرہ زندگی کے حقائق پر سے پردہ ہٹاتے ہوئے ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔

’’بے چہرہ - جسم فروش خواتین‘‘ کے عنوان سے نمائش
’’بے چہرہ - جسم فروش خواتین‘‘ کے عنوان سے نمائش
user

Dw

جرمنی میں اب بھی 'سیکس ورکر خواتین‘ یا جسم فروش عورتوں کے روز و شب کی حقیقت ایک ممنوعہ موضوع ہے۔ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے اور ان گمنام خواتین کی نجی زندگیوں کی کہانیاں بیان کرنے کے مقصد سے جرمنی کے جنوب مغربی شہر منہائم کے ایک میوزیم میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ منہائم میں دراصل ''رائس اینگلمن میوزیمز‘‘ کے نام سے متعدد عجائب گھروں کا ایک سلسلہ ہے جو کچھ عرصے سے میوزیم کمپلیکس کی شکل میں عالمی شہرت کا حامل ایک علاقہ بن چُکا ہے۔ یہاں نمائش گھروں کے علاوہ ایک مشہور ریسرچ سینٹر بھی قائم ہے۔ اسی شہر میں جسم فروش خواتین کے لیے ایک مشاورتی مرکز Amalie Mannheim بھی ہے جس کے ایڈوائزری بورڈ کی ایک رکن جولیا ویگ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''جسم فروشی غیر قانونی عمل نہیں ہے لیکن جسم فروش خواتین کو بہت زیادہ بدنامی کا سامنا ہے۔ اس لیے وہ اکثر دوہرے چہرے کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جسم فروشی اب بھی خواتین کے لیے دوسرے پیشوں جیسا پیشہ نہیں ہے۔‘‘

خواتین سیکس ورکرز کی حیثیت

یورپی ملک جرمنی میں جسم فروشی کو غیر اخلاقی عمل سمجھنے کے خلاف 2002ء میں ایک قانون پاس ہوا تھا اور یہاں 2017ء میں جنسی ورکرز کے تحفظ کا ایکٹ تیار کیا گیا تھا۔ اس کے دو دہائیوں بعد بھی سیکس ورکرز یا جنسی کارکنوں کی قانونی اور سماجی حیثیت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے نہ ہی انہیں معاشرے کے استحصالی اور مجرمانہ ڈھانچوں سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔


ریڈ لائٹ ایریا کی پوشیدہ حقیقتیں

جسم فروش خواتین کے مشاورتی مرکز Amalie Mannheim کی ایڈوائزری بورڈ کی رکن جولیا ویگ کہتی ہیں، ''ہم نےدیکھا ہے کہ معاشرے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ جسم فروش خواتین بہت پیسے کماتی ہیں اور اپنی مرضی سے اور مکمل خود مختاری کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد غربت کی وجہ سے یہ پیشہ اختیار کرتی ہے۔ کچھ کیسز میں شاید یہ عام خیال صحیح ہو۔ ورنہ زیادہ تر خواتین زندہ رہنے کے لیے چند یورو کے عوض اپنا جسم فروخت کرتی ہیں۔‘‘

جولیا نے ریڈ لائٹ علاقے کے بارے میں کہا، ''بہت کم لوگ ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کے پس منظر اور وہاں کے طریقہ کار سے واقف ہوتے ہیں اور اس کے ڈھانچے کو سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اس کی سفاک حقیقت سے غافل ہیں۔‘‘


انہی حقائق کے پس منظر میں خواتین سیکس ورکرز کی زندگیوں پر روشنی ڈالنے کے لیے جولیا اور منہائم کے ''رائس اینگلمن میوزیمز‘‘ کے نگراں افراد اور فوٹو گرافر ہائیپ ژیرلیکایا نے ایک انوکھی تصویری نمائش کا اہتمام کیا جس کا عنوان ہے، ''بے چہرہ ۔ خواتین جسم فروش‘‘۔ اس میں تمام خواتین کے سفید ماسک پہنے چہرے دکھائے گئے ہیں جو علامت ہے اظہار یا تاثرات سے عاری چہروں کی۔ یہ تصویری نمائش جسم فروش خواتین کی اپنی حقیقی شناخت چھپاتے ہوئے معاشرے سے کنارہ کش ہو کر روزمرہ کی حقیقت کی تصویر کشی کرتی ہے۔

ذاتی کہانیاں

جولیا ہیگ بتاتی ہیں کہ اس نمائش کے ذریعے خواتین سیکس ورکرز کے مشکل حالات زندگی، ان کے مالی مسائل، ان میں محدود تعلیم کی وجہ سے شعور کی کمی وغیرہ جیسے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔


وہ کہتی ہیں، ''اس نمائش کا مقصد ان خواتین کے اندر بیداری پیدا کرنے اور ان کے لیے معاشرے میں ہمدردی، عزت اور توقیر کی کوشش ہے۔‘‘ جولیا مزید کہتی ہیں، ''کچھ خواتین نے ہمیں بتایا کہ انہیں جھوٹے وعدے کر کے جرمنی لایا گیا۔ دلالوں کے دباؤ میں یہاں اُن سے کام لیا جاتا ہے۔‘‘ جولیا ہیگ کے بقول اس فوٹو نمائش پراجیکٹ کے ذریعے ان خواتین کے جذبات، خواہشات ان کے خواب اور امیدوں کے بارے میں بات چیت کرنا ممکن ہوا۔ اس منصوبے میں دس خواتین نے حصہ لیا۔ ان سے ان کی زندگی کے بارے میں انٹرویو لیا گیا۔ انٹرویو کے دوران انہیں یہ موقع دیا گیا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ وہ کس جگہ اور کیسی تصویر کشی کے ساتھ انٹر ویو دینا پسند کریں گی۔

یہ نمائش 14 نومبر سے جاری ہے۔ اس نمائش کی نگران اشٹیفانی ہیرمن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ جسم فروش خواتین کی زندگیوں کی اصل تصویر کشی اس نمائش سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شائقین کی ایک بڑی تعداد اب تک اس نمائش کو دیکھنے آ چُکی ہے۔ اس نمائش نے بہت سے لوگوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ سیکس ورکر خواتین کے بارے میں کتنا سطحی اور اکثر اوقات جھوٹے مفروضوں پر مشتمل تصور بنا لیتے ہیں۔ ان کی حقیقی زندگیاں، ان خیالات اور تصورات سے کہیں مختلف ہوتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔