پالتو جانور بچوں کے مزاج پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟

ہمارے پڑوسیوں کو بیرون ملک سفر در پیش ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کی بلی کو کچھ دن کے لیے اپنے گھر رکھ لیا جائے۔ پہلے تو ہم کچھ شش و پنج کا شکار ہوئے لیکن پھر بلی کو دیکھ کر ہمارا دل پگھل گیا۔

بلی کے ساتھ بچی / Getty Images
بلی کے ساتھ بچی / Getty Images
user

Dw

بلی کو گھر لانے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ ہم بلی کی دیکھ بھال کے طریقوں سے قطعی نابلد تھے لہٰذا پورا گھر اس کام میں جت گیا۔ کوئی یوٹیوب پر بلی کو نہلانے اور کھلانے سے متعلق ویڈیوز دیکھنے میں لگ گیا تو کوئی بلیوں سے متعلق اب تک کی گئی ریسرچ تلاش کرنے میں مصروف ہوگیا۔

گھر میں پالتو جانوروں کی موجودگی سے متعلق ہم بھی ایک عام تاثر کا شکار تھے کہ گھر میں گندگی ہو گی محتلف بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہو گا لیکن ہمارا خدشہ غلط ثابت ہوا۔ اس کے برعکس بلی کے گھر میں موجود ہونے سے بچوں پر بہت مثبت اثر پڑا۔


عموماً بچوں کو صبح سویرے جگانا ایک دقت طلب مرحلہ ہوتا ہے لیکن بلی کے ہونے سے یہ فائدہ ہوا کہ صبح سویرے خود سے جاگ کر بلی کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اس نے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔

اسی طرح اسکول سے واپسی پر بھی بلی کی فکر اور پھر کبھی اسے نہلا رہے ہیں تو کبھی اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ بچوں کو نہ صرف ایک صحت مند تفریح ملی بلکہ ان کی قوت برداشت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ساتھ ہی یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ بچے پالتو جانوروں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان میں احساس ذمہ داری بڑھتا ہے اور ان کے معاشرتی رویے بہتر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام سا رویہ ہے کہ گلی میں کتا بیٹھا ہو تو اسے پہلے پتھر مار کر بھگایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے گزریں گے۔ اسی طرح بہت سے بچوں کے لیے کسی جانور کے گلے میں رسی باندھ کر اسے گھسیٹتے پھرنا ایک تفریح ہوتی ہے۔


آئے دن ایسی بہت سی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ کسی نے بلی پر ابلتا ہوا پانی ڈال دیا تو کسی نے اس کے کان کاٹ دیے۔ کتوں کو زخمی کرنے کے واقعات بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں پھیلا ہوا عدم برداشت کا رویہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔

کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر اپنا غصہ نکالنے کے لیے یا اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے احساس کمتری کے جذبات کو پرسکون کرنے کے لیے بیچارے معصوم جانوروں پر تشدد کر بھی لیا جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہاں تو اگر بیچارے کمزور انسانوں سے بھی ایسا سلوک کر لیا جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ تو پھر بے زبان جانور ہے، جو اپنے ساتھ بیتی ہوئی داستان سنا بھی نہیں سکتے۔


اس حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر گھر میں کوئی پالتو جانور موجود ہو تو بچوں کا اس جانور سے ایک ایسا تعلق بن جاتا ہے، جس کے اثرات کو ان کی پوری شخصیت پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات بچوں کی تربیت میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے کہ وہ بچپن میں جب ایک جانور کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اس کا خیال رکھتے ہیں تو ان کی شخصیت میں نرمی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ حسن سلوک کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔

امریکن اکیڈمی آف چائلڈ اینڈ ایڈولسنٹ سائیکیٹری کے مطابق ایک بچہ جو کسی جانور کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک اور تحمل کا رویہ اختیار کرتا ہے تو پھر وہ اپنی زندگی میں لوگوں کے ساتھ بھی اسی طرح تحمل اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرنے کی تربیت پاتا ہے۔


اس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جانوروں کی زندگی کا سائیکل انسانوں کے مقابلے میں کافی تیز ہوتا ہے۔ یعنی وہ کم وقت میں اپنی زندگی کے بہت سے ادوار سے گزر جاتے ہیں اور بچہ ایک پالتو جانور کی زندگی کے تمام ادوار کا مشاہدہ کر پاتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ بچہ الفاظ سے زیادہ مشاہدے سے سیکھتا ہے کیوں کہ بچوں کی مشاہداتی قوت بہت تیز ہوتی ہے۔ اس طرح وہ پالتو جانوروں کو دیکھ کر یہ بھی سیکھتے ہیں کہ حادثات موت بیماریاں اور سوگ زندگی کا حصہ ہیں اور اس صورتحال میں ان کے پالتو جانور کا کیا ردعمل رہا۔


ساتھ ہی ان میں ہمدردی کے جذبات پنپتے ہیں اور پھر جب وہ اپنی زندگی میں کسی انسان کو زندگی کے ان تکلیف دہ مراحل سے گزرتے دیکھتا ہے تو وہی ہمدردی کے جذبات اپنے دل میں محسوس کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کی تکلیف کو سمجھنے کی سکت بھی رکھتا ہے۔

چونکہ بچے حساس ہوتے ہیں لہذا جلد ہی ان جانوروں سے ایک جذباتی لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے اور ایک مضبوط رشتہ بنا لیتے ہیں۔ یہ تعلق ان میں نہ صرف دوسرے جانوروں بلکہ انسانوں سے بھی احترام کے جذبات پیدا کرتا ہے۔


پالتو جانوروں کے ساتھ وقت گزارنے والے بچوں میں خود اعتمادی بھی دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جب پالتو جانور ان کی ہدایات کو نہیں سمجھتے یا پھر کوئی نقصان کر بیٹھتے ہیں تو بچے وقتی طور پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ یہ بات بھی سیکھتے ہیں کہ غصہ کرنے یا جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔

اپنی بات تحمل اور نرم لہجے میں بھی بتائی جا سکتی ہے۔ یہ بات اپنے مشاہدے سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب قربانی کے موقع پر گھر آنے والے جانور کی دیکھ بھال کا موقع آتا ہے تو نہ صرف گھر کے بلکہ محلے کے تمام بچے مل جل کر اس کام میں جت جاتے ہیں۔ آپس کے اختلافات بھلا کے تمام بچے ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں اور انتہائی ذمہ داری سے قربانی کے جانور کا خیال رکھا جاتا ہے۔


یہ سب وہی بچے ہوتے ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی میں انتہائی بے پروائی اور بد مزاجی کے ساتھ ساتھ جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ یہی ہے کہ بڑوں میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رویہ بچوں کی شخصیت میں بھی جھلکتا ہے۔

اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اگر ممکن ہو تو گھر میں ایک پالتو جانور ضرور رکھا جائے۔ اس جانور کی دیکھ بھال بچوں کے ذمہ لگائی جائیں جو کہ بچوں میں احساس ذمہ داری، ہمدردی اور اعتماد میں اضافہ کرے گا۔ بچے ان جانوروں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اس طرح سے ہم اپنے بچوں کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنا سکیں گے۔

(نوٹ: ڈی ڈبلیو / قومی آواز اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو / قومی آواز کے لیے قطعاً ضروری نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔