دوسری عالمی جنگ کے دور کا ایک نقشہ اور ڈچ گاؤں میں خزانے کے متلاشیوں کی یلغار

ایمسٹرڈیم کے جنوب مشرق میں تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقہ اومیرن میں نازیوں کے ہاتھوں لوٹے گئے زیورات پر مشتمل خزانے کی تلاش کی جاتی رہی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے دور کا ایک نقشہ اور ڈچ گاؤں میں خزانے کے متلاشیوں کی یلغار
دوسری عالمی جنگ کے دور کا ایک نقشہ اور ڈچ گاؤں میں خزانے کے متلاشیوں کی یلغار
user

Dw

ایک چوتھائی صدی کے گزر جانے کے بعد مبینہ طور پر قیمتی ذخائر کے دفن کی جگہ کا پتہ لگانے کے لیے جنوری 2023ء میں بڑی تعداد میں لوگ ڈچ گاؤں اومیرن میں نظر آئے۔ میٹل ڈیٹیکٹر، بیلچے اور نقشے کی کاپیاں اپنے اپنے سیل فونز پر لیے ایمسٹرڈیم سے جنوب مشرق میں 50 میل کے فاصلے پر ہر طرح کے لوگ اومیرن میں کھدائی کی کوشش میں لگے رہے۔

’’جی ہاں، یہ یقیناً ایک شاندار خبر ہے جس نے لوگوں کو بے حد متاثر کیا ہے۔نہ صرف ہمارا گاؤں بلکہ وہ لوگ بھی جو یہاں کے رہائشی نہیں ہیں دور دور سے آئے ہیں۔ ‘‘ ان الفاظ میں ایک مقامی رہائشی مارکو روڈ ویلڈ نے ان دنوں اپنے گاؤں میں ہونے والے اس انوکھی کھدائی اور کھوج کے مہم کا ذکر کیا۔ مارکو روڈ ویلڈ کا مزید کہنا تھا، ''ہر قسم کے لوگ بے ساختہ کھدائی کر رہے ہیں۔ان جگہوں پر جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ خزانہ دھات کے ساتھ دفن ہے۔‘‘


اس علاقے کا جغرافیہ

اومیرن ہالینڈ کے صوبے گیلڈرلینڈ کا ایک گاؤں ہے۔ یہ دراصل بورن میونسپلٹی کا ایک حصہ ہے اور مشہور علاقے ٹیل سے شمال مغرب کی جانب نو کلو میٹر کے فاصلے پر قائم ہے۔ 1840ء میں یہ علاقہ محض 413 نفوس پر مشتمل تھا۔ 1944ء میں یہ گاؤں الائیڈ فورسز کی فرنٹ لائن کے نزدیک تھا۔ رواں سال جنوری میں اومیرن ایک انوکھی خبر کے طور پر میڈیا رپورٹنگ کی زینت بنا۔

خزانے کی تلاش

ڈچ گاؤں اومیرن میں خزانہ کی تلاش رواں سال یعنی 2023ء میں اُس وقت شروع ہوئی جب ڈچ نیشنل آرکائیو نے ایک میپ یا نقشہ شائع کیا۔ واضح رہے کہ ڈچ نیشنل آرکائیو ہر سال جنوری میں تاریخ دانوں کے لیے ہزاروں دستاویزات کو عام کرتی ہے۔ اس بار جتنی دستاویز ڈچ نیشنل آرکائیو نے شائع کیں ان میں سے بیشتر کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ لیکن ایک نقشہ، جس میں ایک کنٹری روڈ کے کراس سیکشن کا خاکہ تھا اور دوسرا تین درختوں کا خاکہ جس میں سے ایک کے نچلے حصے یا بیس میں ایک ریڈ یا سرخ X بنا ہوا تھا ، غیر متوقع طور پر وائرل ہو گیا۔ اس شدت سے کہ اومیرن کے موسم سرما کے وسط میں اس علاقے کا سکون کافی حد تک پامال ہو گیا۔نیشنل آرکائیو کی محقق اینیٹ والکنز نے احتیاط سے نقشہ دکھاتے ہوئے کہا، ''ہم خود اس کہانی کے بارے میں کافی حیران ہیں۔‘‘


جنوری کے اوائل میں سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر میں لوگوں کو کھدائی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔کبھی کبھی نجی جائیداد تک پر ایک میٹر یا (تین فٹ) سے زیادہ گہرا ئی تک کھدائی کی گئی۔ ہر طرح کے لوگ اپنی خوش بختی آزمانے اور کسی خوشگوار دریافت کا پتہ لگانے کی امید میں کوشاں نظر آئے۔

یورن کی میونسپلٹی، جہاں یہ گاؤں واقع ہے نے ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا جس میں یہ بتاتے ہوئے کہ دھات کی کھوج پر پابندی عائد ہے، متنبہ کیا گیا کہ یہ علاقہ دوسری جنگ عظیم میں بطور فرنٹ لائن استعمال ہوا تھا۔ بیان میں کہا گیا، ''وہاں تلاش کا کام کرنا خطرناک ہے کیونکہ ممکنہ طور پر یہاں دھماکہ خیز مواد دفن ہو سکتا ہے اور بم، بارودی سرنگیں اور گولے بارود پھٹ سکتے ہیں۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''ہم نازیوں کے خزانے کی تلاش میں جانے کے خلاف مشورہ دیتے ہیں۔‘‘ تاہم خزانے کی تلاش میں کھدائی وغیرہ کرنے والی تازہ ترین مہم کو اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے زیادہ تر ''شکاری ‘‘ اب تک خالی ہاتھ ہی لوٹے ہیں۔


اصل کہانی کیا ہے؟

نیشنل آرکائیو کی محققہ اینیٹ والکنز کہتی ہیں، ''کہانی شروع ہوتی ہے، سن 1944 کے موسم گرما سے۔ نازیوں کے زیر قبضہ شہر ارنہم کو ستاروں سے بھرپور فلم نے مشہور کیا۔اس کا عنوان تھا 'ایک پل بہت دور'۔ جب ایک بم اس علاقے کی ایک چرچ نما عمارت سے ٹکرایا اور سونے کے زیورات اور نقدی سمیت اس کا سامان بکھر گیا۔‘‘ اینیٹ والکنز نے مزید بتایا کہ قریب میں تعینات جرمن فوجیوں نے اس سامان اور نقدی سے اپنی جیبیں بھرنا شروع کیں۔ جرمن فوجی اس سامان کو گولہ بارود کے ڈبوں میں بھی بھرتے گئے۔

1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب، نیدرلینڈز کے جرمن قابضین کو اتحادیوں کی پیش قدمی کے ذریعے باہر دھکیل دیا گیا۔وہ سپاہی جو ارنہم میں تھے اب اومیرن پہنچ گئے جہاں انہوں نے تمام لوٹا ہوا خزانہ دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اینیٹ والکنز نے جنگ کے بعد برلن میں ڈچ فوجی حکام جو اس نقشے کیے ذمہ دار بھی تھے،کی طرف سے لیے گئے ایک جرمن فوجی کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''چار گولہ بارود کے ڈبے اور کچھ زیورات کچھ نقدی جو رومال میں باندھ کر رکھی گئی تھی، اُسے انہوں نے وہیں دفنا دیا تھا۔‘‘ ان محفوظ شدہ دستاویزات سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ آیا مذکورہ جرمن سپاہی اب بھی حیات ہے۔ یورپی یونین کی رازداری کے ضوابط کے تحت اس کا نام ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔


ڈچ حکام کی کوششیں

1947ء میں ڈچ حکام نے نقشے اورسپاہی کے بیانات کے تحت پہلی بار اس علاقے میں کھدائی کی مگر حکام کوئی پیش رفت نہیں کر پائے۔ اینیٹ والکنز نے کہا، ''جب وہ برف پگھلنے کے بعد واپس گئے تو انہیں وہاں کچھ نہیں ملا۔جرمن فوجی کے بقول، ناکام کوشش کے بعد اُسے یہ یقین ہو چلا تھا کہ کوئی اور خزانہ پہلے ہی کھود چکا ہے۔‘‘

اومیرن کے نقشے کی اشاعت کے بعد خزانے کا شکار کرنے والوں یا اس کے متلاشی افراد نے ان تفصیلات کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا تھا۔اس گاؤں کے حالیہ دورے سے پتہ چلا کہ اب وہاں کوئی کھدائی کرنے والا نظر نہیں آتا اور یوں اس گاؤں میں امن اور سکون واپس آ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */