’لڑکی ہی تو ہے، مر گئی تو خدا کی مرضی‘

صوبہ سندھ کے ديہی علاقوں ميں ديکھا گيا ہے کہ والدين نوزائيدہ بچيوں کو ہسپتال چھوڑ جاتے ہيں يا ايسی حالت ميں لے جاتے ہيں، جس ميں ان کا زندہ بچنا ممکن نہيں ہوتا۔

’لڑکی ہی تو ہے، مر گئی تو خدا کی مرضی‘
’لڑکی ہی تو ہے، مر گئی تو خدا کی مرضی‘
user

ڈی. ڈبلیو

چند ماہ قبل کی بات ہے کہ صرف کچھ ہی دنوں کی ننھی سائرہ کو لاڑکانہ کے شیخ زید چلڈرن ہسپتال میں تشویش ناک حالت میں لایا گیا۔ علاج معالجے کے بعد یہ معصوم بچی صحت یاب تو ہو گئی لیکن دوران علاج ہسپتال انتظامیہ کو یہ اندازہ ہوا کہ سائرہ ایسی کئی بچیوں میں سے ایک ہے، جن کو والدین انہيں ہسپتال میں لاوارث چھوڑ جاتے ہیں اور واپس پلٹ کر نہیں پوچھتے۔ اکثر بچیاں اتنی تشویش ناک حالت میں لائی جاتی ہیں کہ طبی امداد ملنے کے باوجود وہ جانبر نہیں ہو پاتیں۔ تاہم سائرہ اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوئی کہ وہ نہ صرف مکمل صحت یاب ہو گئی بلکہ ہسپتال کی ایک نرس نے اسے گود بھی لے لیا۔

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ہسپتالوں میں نوزائيدہ بچیوں کو لاوارث چھوڑ جانے کے واقعات گو کے بہت زيادہ نہيں مگر يہ ايک حقيقت ضرور ہيں۔ صوبے کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اکثر و بيشتر ضلع لاڑکانہ میں قائم شیخ زید چلڈرن ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ يہی وجہ ہے کہ اس ہسپال ميں ایسے سب سے زيادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اور شیخ زید چلڈرن ہسپتال کے سربراہ پروفیسر سیف اللہ جامڑو نے بتايا کہ رواں برس ہسپتال میں چھ نوزائيدہ بچیوں کے والدین اپنا نام اور پتا غلط لکھوا کر بچیاں ہسپتال میں ہی چھوڑ کر غائب ہو چکے ہيں۔ ''تشویش ناک حالت کے باعث ان چھ میں سے پانچ بچیوں کا انتقال ہو گیا جن کی پولیس اور ایدھی سینٹر کی مدد سے انتظامیہ نے تدفین کی۔ اس برس یہاں ایسی چھوڑی جانے والی بچیوں میں سے صرف ایک بچی ہی زندہ رہ سکی، جسے ایدھی سینٹر کی مدد سے ہسپتال میں کام کرنے والی ایک اسٹاف ممبر نےگود لے لیا۔‘‘


پروفیسر سیف اللہ کے مطابق والدین کی جانب سے بچیوں کو یوں لاوارث چھوڑ جانے کے افسوسناک اور قابل مذمت عمل کے پیچھے اصل وجہ سماج میں پنپنے والی سوچ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''ہمارے معاشرے میں عموماً بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو معاشی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو والدین یہ سوچتے ہیں کہ اس پر تو مجھے خرچہ کرنا ہے۔ پہلے اس کو پالنا ہے، تعلیم دلوانی ہے اور پھر اس کی شادی پر خرچہ کرتے ہوئے اسے دوسرے کے سپرد کر دینا ہے۔ پھر چونکہ ہمارے یہاں غربت بھی زیادہ ہے اور طبی سہولیات بھی مہنگی ہیں، اس لیے والدین بیٹیوں پر اخراجات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔‘‘

لاڑکانہ کے شیخ زید چلڈرن ایمرجنسی وارڈ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبداللہ عصر چانڈیو کے مطابق ہسپتال میں بچیوں کو صرف لاوارث ہی نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ایسے کئی کیس بھی سامنے آئے ہيں جن میں والدین يہ جانتے ہیں کہ اگر وہ بچی کو ہسپتال سے لے گئے، تو اس کی موت یقینی ہے۔ ایسے کیسز کو لاما یا 'لیفٹ اگینسٹ میڈیکل ایڈوائس‘ کہا جاتا ہے۔ لاما فارم بھرنے کا مطلب ہے کہ ڈاکڑ کی جانب سے دی گئی تنبیہ یا مشورے کے باوجود بچے کو ہسپتال سے ڈسچارج کرا کر واپس لے جايا گيا۔


ڈاکٹرعبداللہ عصر کے مطابق یہاں دیکھا جائے تو ہزاروں ایسے کیسز ہیں، جن میں والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر کے مشورے کے برخلاف لے جاتے ہیں۔ ایسے کیسوں میں بھی زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ ڈاکٹر عصر عبداللہ بتاتے ہیں، ''ہمارے ریکارڈ کے مطابق 80 فیصد لڑکیاں جبکہ 20 فیصد لڑکے ایسے ہیں، جن کے والدین ڈاکٹرز کی جانب سے تنبیہ کے باوجود انہیں اسپتال سے لے جاتے ہیں۔ صرف اگست سے ستمبر کے ایک ماہ کے عرصے میں لاما کے 19 کیسز درج ہوئے۔ اکثر والدین صرف اس لیے بچیوں کو ہسپتال لاتے ہیں کہ معاشرے میں وہ لوگوں کو بتا سکیں کہ اپنی بچی کو علاج کے لیے ہسپتال لے کر گئے تھے۔ لیکن وہ جلد ہی معاشی حالات کے ہاتھوں اور کبھی اُکتا کر اپنی بچیوں کو واپس لے جاتے ہیں۔ کئی والدین ڈھکے چھپے الفاظ میں تو کئی برملا یہ کہتے ہوئے اپنی بچیوں کو لے جاتے ہیں کہ بچی ہی تو ہے مر بھی گئی تو کیا ہوا۔ خدا نے بچا لیا تو بچا لیا ورنہ خیر ہے۔ اس کے علاوہ بھی بیٹیاں ہیں اور اب یہ بھی ہو گئی۔ مر گئی تو خدا کی مرضی۔‘‘

اس بات کی تائید ہسپتال کی سینئیر میڈیکل آفسر ڈاکڑ سُمیرا بھی کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ والدین اکثر ایسی حالت میں بھی بچیوں کو گھر لے جاتے ہیں جس کے بارے میں ان کو بتا دیا گیا ہوتا ہے کہ اگر بچی کو لگی آکسیجن نکال لی جائے گی تو وہ زندہ نہیں رہ پائے گی۔ ''لڑکوں کے لیے تو والدين پھر بھی سوچتے ہیں لیکن بچیوں کے لیے یہ بات ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘‘


ہسپتال کے ڈاکٹرز کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں بچیوں کے لیے جو سوچ پائی جاتی ہے، اس کو تبدیل کرنے کے علاوہ بچیوں کو یوں لاواث چھوڑنے یا زبردستی لے جانے کے خلاف قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔