پاکستانی زائرین کا وفد کلیر شریف کی زیارت کے لیے بھارت میں

ایک سو سے زائد افراد پر مبنی پاکستانی زائرین کا وفد بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں جاری پیران کلیر کے سالانہ عرس میں شریک ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور نے بھی اس موقع پر مزار پر حاضری دی۔

پاکستانی زائرین کا وفد کلیر شریف کی زیارت کے لیے بھارت میں
پاکستانی زائرین کا وفد کلیر شریف کی زیارت کے لیے بھارت میں
user

Dw

رواں ہفتے 107 پاکستانی زائرین کا وفد بھارت کی پہاڑی ریاست اترا کھنڈ کے شہر ہری دوار پہنچا، جہاں مقامی لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ پاکستانی وفد پیران کلیر درگاہ پر 755 ویں سالانہ عرس میں شرکت کے لیے منگل کو بھارت پہنچا تھا۔

پاکستانی وفد روڑکی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا، جہاں پولیس اور محکمہ ریلوے کے حکام نے زائرین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی، ان کے لیے ریلوے اسٹیشن سے درگاہ تک سخت حفاظتی انتظامات کیے تھے۔


پاکستانی وفد کے ساتھ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور اعزاز خان بھی ہری دوار گئے اور انہوں نے بھی درگاہ پر حاضری دینے کے ساتھ ہی تقریب میں شرکت کی۔ معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابرالمعروف کلیر شریف کا مزار اترا کھنڈ کے ہری دورا میں روڑکی کے پاس واقع ہے، جس کا سالانہ عروس ربیع الاوّل کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ اس بار ان کا 755واں سالانہ عرس ہے جو 25 ستمبر سے 2 اکتوبر 2023ء کے درمیان ہو رہا ہے۔

پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا

نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کی اور بتایا کہ منگل کے روز کمیشن کے ناظم الامور اعزاز خان بھی ہری دوار گئے تھے اور درگاہ پر حاضری دی تھی۔ ہائی کمیشن میں میڈیا امور کے انچارج جمیل بیتو نے ڈی ڈبلیو اردو کو ایک پریس ریلیز بھیجی، جس میں کہا گیا کہ ''ناظم الامور نے حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے مزار پر روایتی چادر چڑھائی۔ ناظم الامور اور زائرین نے پاکستان کی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔''


بیان کے مطابق سجادہ نشین حضرت شاہ علی منظر اعجاز قدوسی صابری نے درگاہ آمد پر ناظم الامور اور پاکستانی زائرین کا استقبال کیا۔ اس مبارک موقع پر، ''دورے میں سہولت فراہم کرنے پر ناظم الامور اعزاز خان نے مزار کے خادمین اور بالخصوص انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔'' پاکستان اور بھارت کے درمیان سن 1947 میں ہی مذہبی مقامات کے دوروں اور زائرین سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا تھا اور اسی معاہدے کے تحت پاکستانی زائرین کا وفد بھارت آیا ہے۔

حفاظتی اقدامات اور رہائش

مقامی انتظامیہ نے پاکستانی زائرین کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظام کیے ہیں۔ محکمہ ریل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ارون بھارتی نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پاکستانی زائرین پانچ روز تک قیام کریں گے اور اس دوران ان کی حفاظت بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''107 پاکستانی زائرین عرس میں حصہ لینے کے لیے پہنچے ہیں اور معاملے کی حساسیت کے مد نظر پولیس فورس کو تعینات کیا گیا ہے۔''


پیران کلیر میں اپنے پانچ روزہ قیام کے دوران زائرین 'صابر پاک درگاہ' پر چادر پوشی میں حصہ لیں گے۔ انٹیلیجنس محکمہ اور پولیس انتظامیہ زائرین کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے تقریب کی سخت نگرانی کر رہی ہے۔ پاکستانی وفد کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام صابری گیسٹ ہاؤس میں کیا گیا ہے، جو درگاہ کے قریب ہی واقع ہے۔ حکام کے مطابق پاکستانی وفد کی واپسی یکم اکتوبر کو ہونی ہے اور ان کی بحفاظت روانگی کو یقینی بنانے کے لیے بھی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

پاکستانی وفد کی حکومتوں سے اپیل

زائرین میں سے ایک محمد عرفان نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں بھارت آمد پر پرتپاک استقبال کی تعریف کی اور کہا کہ ''ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنے آبائی شہر لاہور میں ہوں۔'' ایک اور زائر اقبال فتح نے بھارت اور پاکستان دونوں کے وزرائے اعظم سے سرحد پار کے دوروں کے لیے ویزا کے عمل کو آسان بنانے کی اپیل کی اور کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے لوگ ''ایک دوسرے کے ہاں آسانی سے آ جا سکیں گے، جو دونوں کے لیے مفید ثابت ہو گا۔''


چشتی سلسلے کے تیرہویں صدی کے صوفی بزرگ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری کی درگاہ کو 'سرکار صابر پاک' بھی کہا جاتا ہے اور مسلمان اور ہندو دونوں ہی اس کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں۔ یہ مزار معروف شہر روڑکی کے ایک مضافاتی گاؤں کلیر میں دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے۔ یہ ہندوؤں کے ایک مقدس مقام ہری دوار کے جنوب کی طرف ہے۔ اس جگہ کو ہندو اور مسلم مذاہب کے درمیان اتحاد کی علامت بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ مقامی لوگوں کی اکثریت ہندوؤں کی ہے جب کہ یہاں آنے والے بیشتر زائرین مسلمان ہوتے ہیں۔

یہ درگاہ اپنی صوفیانہ روایات کے لیے بھی مشہور ہے۔ ہر برس بھارت اور بیرون ملک سے لاکھوں عقیدت مند اس کی زیارت کرتے ہیں، خاص طور پر عرس یا سالانہ پروگرام کے دوران تو یہاں زبردست مجمع ہوتا ہے۔ بھارت میں یہ درگاہ سب سے زیادہ قابل احترام مزاروں میں سے ایک ہے۔تاریخی ریکارڈ کے مطابق اس کی تعمیر دہلی سلطنت کے آخری افغان حکمران ابراہیم لودھی کے حکم پر کی گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔