’’پاکستان آکر اپنوں نے جو دُکھ دیے وہ ناقابل فراموش ہیں‘‘

محترمہ خورشید چشتی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں چند ایسی باتیں کہیں، جو تقسیم ہند کے وقت لُٹے پٹے قافلوں کی صورت میں پاکستان آنے والے مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے بہت مختلف ہیں۔

’’پاکستان آکر اپنوں نے جو دُکھ دیے وہ ناقابل فراموش ہیں‘‘
’’پاکستان آکر اپنوں نے جو دُکھ دیے وہ ناقابل فراموش ہیں‘‘
user

Dw

29 نومبر 1936ء میں ناگپور میں پیدا ہونے والی خورشید چشتی قیام پاکستان کے بعد نومبر 1947ء میں پاکستان آئیں تو ان کی عمر گیارہ برس تھی۔ آج وہ تراسی برس کی عمر میں بھی ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے اپنے خانوادے کی ہجرت کی کہانی یوں بیان کرتی ہیں، جیسے کل کی بات ہو۔

خورشید چشتی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں چند ایسی باتیں کہیں، جو تقسیم ہند کے وقت لُٹے پٹے قافلوں کی صورت میں پاکستان آنے والے مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے بہت مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر جب ڈی ڈبلیو نے اُن سے پوچھا کہ ان کی فیملی نے کن حالات میں ہجرت کا فیصلہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ''میرے ابا ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے۔ جب پارٹیشن ہوا تو وسطی بھارت کے لوگ پاکستان آنے کی بجائے حیدر آباد دکن کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ دکن کیوں کہ مسلم سلطنت تھی اس لیے بھی۔ میرا ددھیال بھی حیدرآباد دکن سے تھا۔ ہم لوگوں کا لیکن کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن کیونکہ ہمارے ابا اسٹیشن ماسٹر تھے اور حکام نے یہ پابندی لگا دی تھی کہ ہر اسٹیشن سے حیدرآباد دکن کی طرف جانے والوں کے لیے محدود تعداد میں ٹکٹ دیے جائیں گے۔ لوگوں نے ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن جا کر ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ جہاں پر ہمارے والد کی پوسٹنگ تھی وہاں بھی مسلمانوں نے آنا شروع کر دیا تو وہاں کے مقامی ہندوؤں نے میرے والد پر الزام لگایا اور ان کی شکایت درج کرا دی کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ مسلمانوں کی حمایت و مدد کر رہے ہیں۔ ابا نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور ابھی کچھ ہوا بھی نہیں ہے تو یہ دشمنیاں شروع ہو چُکی ہیں اس لیے ہمارا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ میرے والد نے اپنے تبادلے کی درخواست دی اور وہ ریلوے کے تبادلے پر پاکستان آئے۔‘‘


بہت سے مہاجر خاندانوں کے برعکس خورشید چشتی کا خاندان ناگپور سے جب نقل مکانی کر کے نکلا تو اُسے ایک پوری بوگی میں اپنا تمام ساز و سامان لے جانے کی اجازت تھی۔ ان کا کنبہ اپنے سامان کے ساتھ پہلے ممبئی اور پھر وہاں سے پانی کے جہاز کے ذریعے کراچی پہنچا۔ انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا،''سب کچھ لا سکے مگر ہمارے مویشی وہیں رہ گئے، انہیں ہم اپنے ساتھ نہ لا سکے۔‘‘

بحیثیت ایک مسلم لڑکی خورشید چشتی نے بھارت میں اپنے آبائی علاقے میں بہت اچھا وقت گزارا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ناگپور میں اسکول جاتی تھیں اور تین چار لڑکیوں کا ایک گروپ تھا، جس میں ہندو مسلم دونوں گھرانوں کی لڑکیاں شامل تھیں۔ وہ کہتی ہیں،'' کیا مجال کہ کوئی آنکھ اُٹھا کر ہمیں دیکھ لے یا کوئی آواز کسے۔ حالانکہ ہندو اور مسلم لڑکیاں دیکھنے میں واضح طور پر مختلف نظر آتی تھی۔‘‘


بچپن کی کوئی خوبصورت یاد؟

انہوں نے بتایا، ''ہمارے محلے کا ماحول بہت اچھا تھا، ہندو مسلم سب مل جل کر رہتے تھے۔ رمضان اور عید میں گھر کی پلی گائے کا خالص دودھ ایک دوسرے کو تحفے میں دیا کرتے تھے۔ اگر کسی ایک کے گھر کا جانور دودھ دینا چھوڑ دے تو پڑوسی اپنا جانور لاکر اُس گھر میں باندھ دیتے تھے کہ جب تک اُس کا جانور ٹھیک نا ہوجائے پڑوسیوں کو کسی قسم کی قلت نہ ہو۔ بلا مذہبی تفریق سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔‘‘

پاکستان آکر زندگی کیسی پائی؟ اس سوال کے جواب میں ان کا درد ناک جملہ یہ تھا، ''پاکستان پہنچ کر جو تکلیفیں اُٹھائیں اُس کا کیا ذکر کریں۔ اپنوں نے بہت تکلیف دی ہے۔ پاکستان آنے کےبعد شروع میں تو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا رہا۔‘‘


ان کا کہنا تھا،''ممبئی سے کراچی کے لیے صرف ریلوے ملازمین کے گھروالوں کے لیے پانی کے جہاز کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے ہم کراچی کی کیماڑی بندرگاہ اُترے۔ چار پانچ دن ہم کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہے۔ اُس کے بعد ہمارے ابا کا ٹرانسفر اندرون سندھ کر دیا گیا۔ میرے والد نے حکومت کو درخواست دی کہ ان کی فیملی کو کراچی میں رہنے دیا جائے۔ اس کے بعد ہمیں کراچی کے علاقے کیماڑی میں ایک کواٹر ملا۔ نومبر، دسمبر 1947ء میں ہم کراچی کے اس علاقے میں آباد ہوئے۔ وہاں پہلے سے آباد افراد نے ہمیں بالکل قبول نہیں کیا۔‘‘

محترمہ خورشید سے جب پوچھا گیا کہ انہیں کیوں یہ تاثر ملا تو انہوں نے کہا، ''میرے والد ممبئی کے اعلیٰ تعیلم یافتہ انسان تھے۔ پاکستان میں آکر ان کی ڈگری تک قبول نہیں کی گئی۔ ہمارے ساتھ اتنی ناانصافیاں ہوئیں، ہمیں مالی طور پر شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے والد کو کوئی پروویڈنٹ فنڈ نہیں ملا۔ انہیں بس نئے سرے سے جاب آفر کی گئی بہت کم تنخواہ کے ساتھ۔ پاکستان آ کر اتنے مشکل حالات میں بھی خورشید چشتی صاحبہ نے نا صرف اپنے خاندان کو سپورٹ کیا بلکہ ساتھ ہی چند ایسے کارنامے انجام دیے جو مثالی ہیں۔ اس بارے میں بڑے فخر سے وہ کہتی ہیں، ''میں جب پاکستان آئی تو اُس وقت میں چھٹی کلاس میں تھی، میٹرک میں نے کراچی آ کر کیا۔ میں نے 18سال کی عمر سے ملازمت شروع کی اور 1996ء تک جاب کرتی رہی۔ پہلی جاب اُس وقت ایمپیریل کیمیکل انڈسٹریز آئی سی آئی کمپنی میں کی۔ اُس کے بعد میں نے ایک دوسری برٹش کمپنی میں اور بہتر جاب کی۔ اُس کا نام ہے GlaxoSmithKline۔ اس کمپنی میں پہلی مسلم لڑکی تھی جو بحیثیت ٹیلی فون آپریٹر اور ریسپشنسٹ کام کر رہی تھی۔ اس موقع پر ایسا لگتا تھا جیسے مجھے وہاں نمائش کے لیے رکھا گیا ہو۔ کمپنی کے بہت سے ملازم جھانک جھانک کر مجھے دیکھتے اور کہتے ''آ مسلم گرل‘‘ کیونکہ تب بہت کم ہی مسلمان لڑکیاں جاب کرتی تھیں۔‘‘


انہوں نے بتایا کہ 18 سال سے لے کر 60 سال ریٹائرمنٹ کی عمر تک وہ جاب کرتی رہیں۔ اسی دوران شادی بھی ہوئی اور وہ دو بیٹوں کی ماں بھی بنی۔ دونوں بیٹوں کی عمروں میں 12 سالوں کا فرق ہے۔ چھوٹے بیٹے کی عمر اب 34 سال ہے اور وہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے۔ محترمہ خورشید نے اپنے دونوں بیٹوں کو تعلیم دی۔ ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ بچوں کی نگہداشت اور انہیں تعلیم دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے اس لڑکے کو گھر پر اس طرح تربیت دیتی رہیں کہ وہ انتہائی ذہین اور محنتی بنا۔ اب وہ ہر کام نہ صرف خود کر لیتا ہے بلکہ اپنی ماں کی بھی بھرپور مدد کرتا ہے بلکہ ہر طرح کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا ہے۔

پاکستان آئے ہوئے 75 برس گزر گئے کیا آپ اب بھی بھارت کو یاد کرتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں محترمہ خورشید کا کہنا تھا، ''مجھے اپنے بھائی بہن گھر والے بہت یاد آتے ہیں۔ پانچ چھ سال کی عمر سے آپ تمام تر یادیں اپنے ذہن میں محفوظ کرنے لگتے ہیں۔ مجھے اپنی بڑی بہنیں بہت یاد آتی ہیں ان کی شادیاں وہیں ہو گئی تھیں اس لیے وہ پاکستان نہیں آئیں۔ ‘‘


پاکستان بنانے کا فیصلہ کیسا تھا؟

جواب میں خورشید چشتی کہتی ہیں، اب میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ اچھا ہوا یا بُرا۔ کم از کم مسلمان اکثریت میں تو تھے۔ ویسے تو ناگپور میں اب بھی میرا پورا ننھیال ہے۔ دو ماموں دونوں کے سارے بچے وہیں ہیں۔ میرا بڑا بیٹا جب آٹھ برس کا تھا تو میں ایک بار ناگپور گئی تھی۔ سب بچے مل کر مزے سے گھومتے پھرتے سائیکل چلاتے تھے۔

محترمہ خورشید چشتی کہتی ہیں کہ وہ صبر و شکر کے ساتھ بھرپور زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے بقول عمر کے اس حصے میں بھی وہ ہر طرح کے کام خود کر لیتی ہیں اور اپنی قریب ایک سو سال پرانی مشین سے سلائی کرتی ہیں۔ انہیں کڑھائی، دستکاری اور بُنائی کا بہت شوق ہے۔ اپنے گھر میں باغبانی بھی خود کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے لیے سب سے قیمتی زیور تعلیم ہے۔ (کشور مصطفیٰ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔