ہماری ترجیح چاند نہیں ہماری ترجیح مذہبی ذمہ داری اٹھانا رہی ہے: پاکستانی پروفیسر

چندریان 3 کی کامیابی پاکستان میں سوشل میڈیا پر مسلسل ٹرینڈنگ میں ہے، جہاں ایک طرف پڑوسی ملک کی تاریخ ساز کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں یہ سوال بھی ہے کہ آخر پاکستان چاند پر کب پہنچے گا؟

'چاند پر اترنا تو درکنار ہم تو یہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے‘
'چاند پر اترنا تو درکنار ہم تو یہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے‘
user

Dw

بھارت کے مقابلے میں پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنا کیوں پیچھے رہ گیا؟ بھارت کا چاند کی طرف بھیجا گیا یہ تیسرا خلائی مشن ہے جبکہ پاکستان میں دور دور تک ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان نے سپارکو، یعنی سپیس اینڈ اپر اٹماسفیئر ریسرچ کمیشن کا ادارہ 1961ء میں قائم کر لیا تھا۔ جبکہ بھارت نے اپنا خلائی ادارہ اسرو آٹھ سال بعد 1969ء میں بنایا۔

اگر اسرو کے بجائے یہ تاریخ ساز کارنامہ سپارکو نے سرانجام دیا ہوتا تو آج یوں قابل رشک انداز میں پاکستان کا ذکر کیا جا رہا ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ایسا کیوں نہ کر سکا؟ اور کیا آغاز سے ہی پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی صورت حال تشویش ناک تھی؟


پاکستان میں سائنسی علوم کے سرگرم کارکن اور نامور سائنسدان پروفیسر ہود بھائی کہتے ہیں کہ ملک کے ابتدائی سال سائنسی تحقیق کے حوالے سے حوصلہ افزا تھے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 1947ء کے بعد پاکستان کے حصے میں بہت کم ادارے آئے، ''یونیورسٹیوں کی ہی مثال لے لیجیے، محض ایک یونیورسٹی ہمیں ملی جبکہ بھارت میں تب پندرہ یونیورسٹیاں تھیں۔ گویا بہت بنیادی چیلنج ایسے اداروں کا قیام تھا، جہاں جدید علوم سائنسی انداز میں پڑھائے جائیں اور سائنسی تحقیق کی بنیاد رکھی جائے۔‘‘

اس کے باوجود پاکستان نے اپنے خلائی پروگرام کا آغاز بھارت سے پہلے کیا۔ اس پروگرام کا آغاز1961ء میں امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ موسمیاتی راکٹوں کے ساتھ ہوا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں خلائی تحقیق میں پاکستان نے تیزی سے ترقی کی اور تب پڑوسی ملک کے خلائی پروگرام سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ 1967ء میں اسلام آباد یونیورسٹی کا قیام اور خاص طور پر اس سے منسلک انسٹی ٹیوٹ آف فزکس ملکی تاریخ میں سنگ میل ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے 1970ء کی دہائی کے وسط میں پارٹیکل فزکس کے ایریا میں اعلیٰ معیار کی تحقیق کی جو تب امریکہ کے اوسط درجے کے طبیعیات کے شعبے کی برابری کی تھی۔ مگر ستر کی دہائی کے اواخر میں صورت حال بدلنے لگی۔


پروفیسر ہود بھائی کہتے ہیں، ”تب سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہماری سمت درست تھی۔ ہم نے سائنسی کو اسلامیات کے رنگ میں نہیں رنگا تھا۔ پہلے مذہب کی بنیاد پر کسی کی سائنسی صلاحیت کو رد نہیں کیا جاتا تھا۔" سائنسدان اور محقق ایچ نیر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام غیر معمولی دماغ تھے اور ان کی وراثت کو ریاست نے اون نہیں کیا، ''ہمیں فخر ہے کہ انہوں نے اور چند دیگر افراد نے شاندار بنیاد فراہم کی، ہمیں افسوس ہے کہ وہ ورثہ سنبھالنا تو کیا ہم اسے اون ہی نہ کر سکے۔”

2021ء میں پاکستان کی سرفہرست 10 برآمدات میں ٹیکسٹائل، کپاس، اناج، تانبا، پھل، معدنیات، کھیلوں کا سامان، چمڑے کا سامان، سافٹ ویئر اور طبی آلات شامل تھے۔ محض آخری دو چیزیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بھارت نے اس ایک سال کے دوران سافٹ ویئر کی 149 بلین ڈالرز اور ہائی ٹیک کی 21 بلین کی برآمدات کیں۔ ان دونوں شعبوں میں پاکستانی برآمدات بالترتیب دو بلین اور 0.3 بلین ڈالرز تک محدود ہیں۔


محققین کے مطابق اس سے دونوں ملکوں کی سائنسی میدان میں ترقی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مگر پاکستان بھارت سے اس قدر پیچھے کیوں ہے؟ پرویز ہود بھائی ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”یہ صلاحیت کا نہیں ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ ہم نے افغان جہاد کو ترجیح دی، ہم نے مذہب کی ذمہ داری اپنے سر لے لی، ہماری پالیسیاں کچھ تخلیقی کرنے کے بجائے سکیورٹی کے نام پر بھیک مانگنے تک محدود رہیں۔ ہم نے آنے والی نسلوں کے بجائے وقتی مفادات کے لیے بھیانک سودے بازیاں کیں۔ ہم دن بدن زوال کی دلدل میں پھنستے گئے اور کسی نے توجہ دلائی تو اسے غدار کہہ کر اس کا سر کچلنے کی کوشش کی۔ آج دنیا بھارت کو کس حوالے سے جان رہی ہے، اور ہمیں کس حوالے سے جانتی ہے؟ یہ گزشتہ پانچ دہائیوں کی فصل ہے، جو دونوں ممالک اٹھا رہے ہیں۔"

چندریان تھری کی کامیابی کا ایک حیران کن پہلو اس کی ٹیم میں شامل قریباً تمام ماہرین کے پاس ملکی ڈگریوں کا ہونا ہے۔ اسرو کے چیئرمین سومناتھ سے لے کر پراجیکٹ ڈائریکٹر اور دیگر ارکان نے بھارت کے اندر ہی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ دوسری طرف محض اسلام آباد میں ایک درجن سے زائد سائنسی اور ٹیکنالوجی سے وابستہ تحقیق کے ادارے اور یونیورسٹیاں موجود ہیں، جو سالانہ درجنوں ریسرچ پیپرز شائع کرتے ہیں مگر عملی لحاظ سے سائنسی یا ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت کیوں نہیں ہو رہی؟


پروفیسر ہود بھائی کہتے ہیں، ”بھارت اور پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے اہم فرق سائنسی اور غیر سائنسی طرز تدریس کا ہے۔ بھارت میں سائنس سائنسی انداز میں پڑھائی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں سائنس، تاریخ، فزکس اور ٹیکنالوجی کے مضامین میں بھی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے بچوں میں سائنسی انداز فکر ہی نہیں پیدا ہوتا۔" ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پاکستان اکیڈمی آف سائنس سے وابستہ ڈاکٹر فاطمہ احمد کہتی ہیں کہ ریسرچ پیپرز ایچ ای سی کی ناکام پالیسی ہے، یہ پروموشن کا ذریعہ ہیں، جن کا علم اور تحقیق سے کوئی تعلق نہیں، کاپی پیسٹ چل رہا ہے، ''تعلیم کی یہی صورتحال رہی تو چاند پر اترنا تو درکنار ایسا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔"

ولسن سینٹر میں قائم ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین اپنے تازہ مضمون میں اسے بھارت کی”عظیم جیو پولیٹیکل جست" قرار دیتے ہیں۔ فارن پالیسی میں ”بھارت کی مون لینڈنگ ایک عظیم جیو پولیٹیکل جست" کے نام سے شائع ہونے والے اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ ”سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کا انڈین خواب ممکن ہے ابھی پورا نہ ہو لیکن وہ اب زیادہ طاقت ور امیدوار بن کر ابھرا ہے، جو کام ابھی تک روس اور جاپان نہیں کر سکا وہ بھارت نے کر دکھایا۔"


جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ پروفیسر ناریل بوروٹز دی کنورسیشن میں اپنے تازہ مضمون میں لکھتی ہیں، ”اس سے نہ صرف بھارت کے اندر سائنسی تحقیق کو مزید فروغ ملے گا بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں نجی کمپنیاں میں وسیع سرمایہ کاری کریں گی، نئی سٹارپ اپ شروع ہوں گی جس سے معیشت مستحکم ہو گی۔" ان کے مطابق ”موسم کی پیشن گوئی، سمندری وسائل کی تشخیص، جنگلات کے احاطہ کا تخمینہ لگانا، مواصلات اور دفاع کے نقطہ نظر سے خلا اور خلائی ٹیکنالوجیز کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے جو ترقی پذیر ممالک اپنے شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔