‘چڑیلز‘: تجسسس بھرا اور سنسنی خیز پاکستانی ڈرامہ 

اس ویب سیریز میں تیسری جنس اور ہم جنس پرست کردار بھی ہیں جو روایتی پاکستانی ڈرامے میں شاید ہی دیکھے جا سکیں۔

'چڑیلز‘: پاکستانی ڈرامے کا ڈیجیٹل دور میں اہم قدم
'چڑیلز‘: پاکستانی ڈرامے کا ڈیجیٹل دور میں اہم قدم
user

ڈی. ڈبلیو

بھارت کی گلوبل آن لائن وڈیو سٹریمنگ سروس 'زی فائیو‘ کی جانب سے پہلی پاکستانی ویب سیریز 'چڑیلز‘ گیارہ اگست کو لانچ ہو گئی۔ اس سیریز کو پاکستانی نژاد برطانوی ہدایتکار عاصم عباسی نے لکھا اور بنایا ہے۔ وہ اس سے پہلے 'کیک‘ جیسی شہرہء آفاق فلم بنا چکے ہیں۔

اگر آپ نے اب تک 'چڑیلز‘ کا صرف ٹریلر دیکھا ہے تو دھوکا مت کھائیے گا کہ یہ امریکی ٹی وی سِٹ کام 'سیکس اینڈ دی سٹی‘ یا 'فور مور شاٹس‘ کا پاکستانی چربہ ہے۔ بظاہر تو یہ چار عورتوں کی کہانی ہے لیکن آگے جاکر ایک تجسس بھری اور سنسنی خیز ویب سیریز ثابت ہوتی ہے۔


دس اقساط پر مشتمل 'چڑیلز‘ کا آغاز کافی روکھا محسوس ہوا اور پہلی دو اقساط نے کوئی خاص اثر نہیں چھورڑا۔ لیکن پھر تیسری قسط سے یہ سیریز آپ کو اپنے سحر میں جکڑنا شروع کردے گی اور ہر نئی قسط تجسس اور اشتیاق میں اضافہ کرتے ہوئی نویں قسط تک ایک مکمل تِھرلر کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہی اس سیریز کی سب سے بڑی کامیابی کہ کہانی مسلسل آگے بڑھتی رہتی ہے اور ہر منظر آپس میں جڑا ہوا ہے۔ اگر آپ نے غور سے نہیں دیکھا تو شاید کہانی سمجھ میں ہی نہ آئے۔

پاکستانی سیریز لیکن ذرا ہٹ کے


پاکستانی ٹی وی ڈرامہ کافی عرصے سے خواتین کرداروں پر مرکوز رہا ہے۔ ڈرامے بنیادی طور پر خواتین کے لیے ہی لکھے جاتے رہے ہے، جن کے موضوعات زیادہ تر عشق و محبت، گھریلو مسائل اور سازشوں تک ہی محدود رہے ہیں۔ ویب سیریز 'چڑیلز‘ اس سے کہیں ہٹ کر ہے۔

عاصم عباسی نے اس سیریز کو ایسے تخلیق کیا ہے کہ پاکستانی ٹی وی کے روایتی مکالموں کی ضرورت نہیں رہتی۔ عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے جو کہانی دکھائے، سنائے نہیں۔


اس میں آپ کو جہاں پدرشاہی معاشرے کی ستائی خواتین کی کہانیاں دیکھنے کو ملیں گی وہیں ایک تیسری جنس کا کردار بھی ملے گا۔ اس سیریز میں کچھ ہم جنس پرست کردار بھی ہیں جن کی روایتی پاکستانی ڈرامے میں جگہ ممکن نہیں۔ درحقیقت عاصم عباسی نے معاشرے میں موجود کرداروں کو دوبارہ تخلیق کیا ہے اور اس میں حقیقت کے رنگ بھرے ہیں۔

'فیمینزم‘ سے بھرپور بیانیہ


چار خواتین میں ایک اپنے شوہر کی قاتل ہے، دوسری ایک غریب گھرانے کی لڑکی ہے جسے باکسنگ کا شوق ہے، تیسری ایک امیر کاروباری عورت اور چوتھی ایک گھریلو خاتون ہے جو پہلے وکیل رہ چکی ہے۔ یہ عورتیں مل کر معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے نہ صرف آواز اٹھاتیں ہیں بلکہ باقاعدہ لڑائی لڑتی ہیں۔

اس ویب سیریز کی ایک اہم بات اس کا نسائیت یعنی 'فیمینزم‘ سے بھرپور بیانیہ ہے، جو معاشرے میں موجود کئی دقیانوسی خیالات کو مسترد کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ یکطرفہ بیانیہ ہے؟ سیریز میں اس پر کوئی بحث نہیں اور نہ ہی دوسری جانب کا مؤقف شامل کیا گیا ہے۔ شاید یہ اس کی ایک خامی ہے۔


حالیہ دنوں میں آپ نے سوشل میڈیا پر پاکستانی ڈراموں کے بارے میں کئی مذاق دیکھے ہوں گے، جیسے بہنوئی سالی کے پیچھے، تو کہیں شوہر بیوی کی دوست کے پیچھے۔ 'چڑیلز‘ ہمیں اس سے آگے کی کہانی دکھاتی ہے اور یہی چیز اسے 'لازمی‘ طور پر دیکھی جانے والی فلموں کی فہرست میں شامل کرتی ہے۔

پروڈکشن کا عمدہ معیار


'چڑیلز‘ کی سب سے اچھی بات یہ کہ اس میں حقیقی پاکستان دکھایا ہے۔ کہیں بھی اسے غیر معمولی طور پر چمکانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ غریب اور متوسط علاقوں کو بھی اسی انداز سے فلمایا گیا ہے جیسے وہ ہیں۔ یہ چیز اس سیریز کو حقیقت سے بہت قریب لےآتی ہے۔

'چڑیلز ‘کی پروڈکشن کا معیار انتہائی عمدہ ہے جس میں ایک ایک سین، ایک ایک فریم پر وقت لگایا گیا ہے۔ عمومی طور پاکستانی پروڈکشن کے معیار پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، لیکن اس میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ یہ ایک ویب سیریز ہے اور اسے سینما میں نہیں بلکہ ٹی وی اور موبائل پر دیکھا جاتا ہے اس لیے فریمز کو بھی اسی حد تک رکھا گیا ہے۔


اسی طرح کہانی، مکالمے، اور موضوعات میں وہی انداز اپنایا ہے گیا ہے جو ایک ویب سیریز کے جدید تقاضوں کے مطابق ہو۔ اسی لیے اس میں شراب اور چرس کا استعمال کرنے والے کردار بھی ملیں گے۔ یہ وہ کردار ہیں جو پاکستان میں ویسے تو جابجا نظر آتے ہیں مگر ٹی وی ڈراموں میں نہیں دکھائے جاتے۔

اداکاری کے جوہر


اگر اداکاری کی بات کریں تو ثروت گیلانی نے 'سارہ‘ کا کردار بہت اچھے انداز میں ادا کیا ہے۔ ایک گھریلوں خاتون کے حالات کیسے اسے یکسر بدل دیتے ہیں اس کا احاطہ بہترین انداز میں کیا گیا ہے۔ ان کا کردار سارہ جس سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک وکیل کا ہے جو اپنا پیشہ گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے چھوڑ چکی ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے شوہر کے دیگر خواتین سے بھی تعلقات ہیں تو اس کے اندر ایک بدلے کی آگ بھڑکتی ہے اور یہیں سے ان چڑیلوں کی کہانی شروع ہوتی ہے۔

یاسرہ رضوی نے 'جگنو چوہدری‘ کا کردار ادا کیا ہے جو شادی کی تقریبات منعقد کرانے والی خاتون ہیں۔ جگنو چوہدری نے ایک افریقی نژاد سے شادی کی۔ وہ دنیا کو بہت مختلف طرح دیکھتی ہیں اور پھر خاندان کے دباؤ میں انہیں اپنے سیاہ فام شوہر کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ وہ اس معاشرے میں ایک مختلف کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، جس کے لیے وہ اونچے طبقے سے اپنے تعلق کو استعمال بھی کرتی ہیں۔ یاسرہ نے اس کردار کو ایسے نبھایا جیسے انہی کے لیے لکھا گیا ہو۔


نمرہ بچہ کا کردار 'زینب‘ ایک ایسی عورت کا ہے جو شوہر کے قتل کے جرم میں بیس سال جیل کاٹ کر رہا ہوتی ہے۔ یہ ایک مشکل کردار تھا جسے انہوں نے بہت عمدگی سے نبھایا۔ البتہ میری رائے میں خاتون باکسر کے کردار میں جتنی جان تھی مہر بانو بطور زینب اس سے انصاف نہیں کرپائیں۔ کئی مقامات خصوصاً ایکشن کے دوران اس کی کمی محسوس ہوئی۔

عاصم عباسی نے اس ویب سیریز میں ستاروں کا جھرمٹ جمع کیا ہے، جن میں سرفہرست ماہرہ خان اور عدنان ملک بھی شامل ہیں۔ ماہرہ خان کا کردار اگرچہ مہمان اداکارہ کا ہے مگر وہ اپنا تاثر چھوڑ جاتی ہیں۔ مہمان اداکاروں میں سرمد کھوسٹ کی بات نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے ایک ہم جنس پرست شوہر اور پروفیسر کا کردار ادا کیا۔


پاکستانی ڈرامہ نئے دور میں داخل

بھارت یا دیگر مغربی ممالک میں بننے والی ویب سیریز کی طرح 'چڑیلز‘ میں عریاں یا بے باک مناظر تو نہیں لیکن گالیوں کی بہتات ہے۔ سچ یہ ہے کہ جیسے پاکستان میں سڑکوں یا گلیوں میں گفتگو کی جاتی ہے ویسے ہی مکالمے ہیں۔


لیکن اس پر میرا اعتراض ہے کہ یہ خواتین مردوں کے جبر کے خلاف اٹھتی ہیں تو بات بات ماں بہن کی گالی کیوں دیتی ہیں؟ یہاں وہ اسے ایک آزادی کا احساس کیوں سمجھتی ہیں؟ شاید اس پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت تھی۔

اس سیریز کی پس پردہ موسیقی بھی کافی مناسبت سے چُنی گئی ہے اور وہ کئی مواقع پر صورتِ حال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔


میری رائے میں یہ ویب سیریز پاکستان کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے، صرف موضوعات کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی۔ گزشتہ ماہ جب بھارت کی گلوبل اسٹریمنگ ایپ زی فائیو کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ نا صرف پاکستانی ڈرامے اپنی ایپ پر واپس لارہی ہے بلکہ اس نے پاکستان سے پانچ خصوصی ڈیجیٹل ویب سیریز بھی تیار کروائی ہیں تو جیسے مالی مشکلات کا شکار پاکستانی شوبز اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں ایک نیا جذبہ آگیا اور پاکستانی ڈرامے کی صنعت باقاعدہ ایک ڈیجیٹل دور میں داخل ہو گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔