’خاندانی منصوبہ بندی صرف بچوں کی پیدائش روکنے کا نام نہیں‘

دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر گئی ہے اور وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے متاثرہ ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت کو آبادی کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہییں۔

’خاندانی منصوبہ بندی صرف بچوں کی پیدائش روکنے کا نام نہیں‘
’خاندانی منصوبہ بندی صرف بچوں کی پیدائش روکنے کا نام نہیں‘
user

Dw

''سر، میں اس وقت جس گھر میں آئی ہوں، اس آدمی کی تین بیویاں ہیں اور ہر بیوی سے اٹھارہ اٹھارہ بچے ہیں۔‘‘ 2023ء میں ہونے والی مردم شماری میں یہ ایک آڈیو سوشل میڈیا پر بہت مشہور ہوئی۔ بظاہر یہ گفتگو لوگوں کے لیے مزاح کا ذریعہ بنی مگر دراصل یہ آڈیو حکومتی سطح پر چلائی جانے والی فیملی پلاننگ کی اسکیموں پر ایک بھر پور طنز تھا۔ 2023ء کی اب تک کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی میں 2017ء کی نسبت چھ سے آٹھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے (یو این ایف پی اے) نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر کی آبادی 8 ارب تک پہنچ چکی ہے جبکہ صرف پاکستان کی آبادی 1.9 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں اوسطاً فی عورت تقریباً 3.6 بچوں کو جنم دے رہی ہے۔


ڈائریکٹر جنرل، پاپولیشن اینڈ ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ لاہور ثمن رائے نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی سطح پر فیملی پلاننگ کے حوالے سے بہت سے پروگرامز پر کام ہو رہا ہے، ''لیکن بدقسمتی سے کم تعلیم یافتہ افراد کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ فیملی پلاننگ کا مطلب بچوں کی پیدائش کو روک دینا یا ختم کرنا نہیں ہے۔‘‘

ثمن کہتی ہیں کہ پاکستان میں ہر گھنٹے میں 750 سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں اور 62 شیر خوار بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ اس کی بہت بڑی وجہ پیدائش میں کم وقفہ ہونا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھانا بھی بہت مشکل ہے کہ زیادہ بچے اور کم وسائل زندگی میں کبھی آسودگی نہیں لاتے جیسا کہ عموما ہمارے ہاں زیادہ اولاد بڑھاپے کا بہترین سہارا سمجھ کر بھی پیدا کی جاتی ہے۔


زری اشرف ڈاکٹر ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں میں انہوں نے جنوبی پنجاب میں خواتین کی صحت اور بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ زری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دیہی علاقوں میں زیادہ بچوں کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ خاندانی منصوبہ بندی کا تصور آج بھی غیر اسلامی، غیر شرعی اور بدتہذیبی میں شمار ہوتا ہے۔ زری کہتی ہیں کہ عورت سے بات کرنا پھر بھی کچھ آسان ہے جبکہ مرد اب بھی کونڈم کو استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے جبکہ یہ تمام ادویات حکومت کی جانب سے انہیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

ایک غیر سرکاری ادارے ایکٹ انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مبشر بلوری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یکساں نصاب میں سائنس کے مضامین میں شامل کیے گئے ہیں۔ تولیدی صحت یا ری پروڈیکٹیو ہیلتھ کے اسباق کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ مرحلہ بہت مشکل تھا لیکن بے حد ضروری بھی، ''کیونکہ ہمیں سیکس ایجوکیشن اور ری پروڈیکٹیو ہیلتھ کے حوالے سے بچوں کی ذہن سازی اب سکول کی سطح پر کرنی ہو گی۔‘‘ مبشر کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ مل کر ان اسباق کو مرتب کرتے ہوئے خاص طور پر زور اس بات پر دیا گیا تھا کہ مضامین میں سیکس کا لفظ کہیں استعمال نہ ہو۔


ثمن رائے کا کہنا ہے کہ آبادی بڑھنا ایک قدرتی عمل ہے کیونکہ ہر باشعور بلوغت کو پہنچے گا تو اپنا خاندان بڑھائے گا مگر توجہ طلب کام پیدائش میں وقفہ، ماں اور بچے کی صحت اور وسائل میں رہتے ہوئے خاندان کا پھیلاؤ ہے۔وہ کہتی ہیں، ''ہمارے معاشرے میں جب تک لوگوں کو یہ نہ سمجھایا جائے کہ مذہب بھی اس بات پر آپ سے جواب طلب کرتا ہے کہ جس اولاد کو پیدا کیا، اسے اس کے بنیادی حقوق دیے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں آج بھی مذہبی فکر کو ترجیح دی جاتی ہے جس کے لیے ہم اپنے پروگراموں میں علماء کرام کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔‘‘

رابعہ ایک گھریلو خاتوں ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔ فیملی پلاننگ کے لیے انہوں نے خود احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ رابعہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹرز کے کہنے کے مطابق انہوں نے دو سال اپنے بچے کو اپنا دودھ پلایا مگر اس کے باوجود ان کا تیسرا حمل ٹھہر گیا، ''حمل ضائع کرانے کو ہم گناہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے بعد میرا ڈاکٹرز پر سے اعتبار ختم ہو گیا اور تیسرے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی میں نے آپریشن کروا لیا۔‘‘


جہاں آراء ایک ماہر نفسیات ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عموماﹰ جب بھی میاں بیوی سے فیملی پلاننگ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ جوڑا واپس سینٹرز میں نہیں آتا کیونکہ مرد عورت کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے، ''ایک اچھی بیوی کے طور پر اسے ہر وقت، ہر حالت میں شوہر کی اواز پر لبیک کہنا ہے ورنہ وہ گناہ گار ہو جائے گی۔

زینب کا گزارا گدا گری پر ہوتا ہے جبکہ اس کا شوہر معذور ہے۔ زینب کے گھر ہر سال ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے زینب نے کہا، ''ہم غریب لوگ ہیں۔ میاں کام نہیں کرتا۔ جتنے بچے پیدا ہوں گے وہ ہمارا سہارا بنیں گے کیونکہ ہم انہیں کام پر لگائیں گے۔‘‘


فیملی پلانگ، وقت کی ضرورت ہے اور سیکس ایجوکیشن پر بات کرنا بھی۔ پاکستان میں جس تیز رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی رفتار سے وسائل کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ اسکول نہیں جا پاتا۔

ثمن رائے یقین رکھتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ساتھ چلنے والے پروگرام فیملی پلاننگ کی آگاہی میں بہت موثر کردار ادا کریں گے۔ ان کا کہنا ہے، ''اب ہم نے آگاہی کے لیے مرد اہلکاروں کو بھی شامل کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا کو بھی بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے تا کہ ہمارے لوگ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ گندم اور آٹے کے لیے لائنیں لگانے سے بہتر مانع حمل ادویات اور فیملی پلانگ پر عمل ہے تاکہ زندگی میں صحت بھی رہے اور سہولت بھی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */