خواتین بن رہی ہیں بھارتی سیاست کی بادشاہ گر

بھارت کا سیاسی نظام بنیادی طور پر مردوں کے زیر تسلط ہے، جہاں خواتین بطور ووٹر تو تسلیم ہیں لیکن بطور سیاسی لیڈر تسلیم نہیں ہے۔ مگر یہ طے ہےکہ بھارت سیاست کی اگلی بادشاہ گر خواتین ہوں گی۔

خواتین بن رہی ہیں بھارتی سیاست کی بادشاہ گر
خواتین بن رہی ہیں بھارتی سیاست کی بادشاہ گر
user

Dw

جب بھی بھارت کے دارلحکومت دہلی میں انتخابات ہوتے ہیں، تو ہمارا گھر ایک طرح سے انتخابی بحث کا اکھاڑا بن جاتا ہے۔ میرے شوہر کسی اور پارٹی یا امیدراو کی حمایت کرتے ہیں، تو میں کسی اور کی۔ گھر کا ڈرائینگ روم ہو یا بیڈ روم انتخابی جنگ کا میدان بنا ہوا ہوتا ہے۔ خیر میں ایک صحافی اور پھر ایک شہری علاقہ کی باسی اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک باخبر خاتون کہلانے کی حقدار ہوں اور شوہر اور گھر والوں کی رائے کے خلاف ووٹ کر سکتی ہوں، مگر پچھلے چند سالوں میں بھارت کے انتخابات کے نتیجے کا تجزیہ کرتے ہوئے، معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف شہری علاقوں، بلکہ دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں بھی خواتین اب گھر کے مردوں کے برخلاف ووٹنگ کرتی ہیں۔

اس لیے اب تمام سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی ایجنڈا میں خواتین کے لیے الگ سےکئی صفحات مخصوص رکھتی ہیں۔ سیاستدان مختلف وعدے کرتے ہیں، جو خواتین کی بہبود اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ان کے ووٹ کو لبھانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔


روایتی طور پر بہت سے جنوبی ایشیائی معاشروں کی طرح بھارت میں بھی عموما نظریہ یہ ہے کہ خواتین کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ہے۔ خاندان کے مرد افراد، جیسے دادا، باپ یا شوہر ان کی طرف سے فیصلے کرتے ہیں۔ ووٹنگ کے فیصلے بھی عام طور پر خاندان یا مقامی کمیونٹی لیڈر کے مردوں کے ذریعے کیے جاتے ہے۔

خواتین کے ووٹ کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2019 کے انتخابی منشور میں مسلم خواتین میں طلاق اور مساوی حقوق جیسے مسائل پر توجہ دی گئی۔ اس کے 48 صفحات پر مشتمل منشور میں 37 مرتبہ خواتین کا ذکر آیا ہے۔


یہ صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر قومی اور ریاستی سیاسی پارٹی اب اپنے منشور میں ایک مخصوص حصے خواتین کے لیے شامل کرتی ہیں۔ اس میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانا، لڑکیوں کی تعلیم، غیر شادی شدہ، بوڑھے اور بیوہ خواتین کے لیے مالی فوائد، کھانا پکانے کے لیے کم قیمت میں گیس کی فراہمی جیسی اسکیموں کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ ایسی اسکیمیں ہوتی ہیں، جو خواتین کو لبھاتی ہیں۔

تاہم، حال ہی میں مکمل ہونے والے پانچ ریاستی اسمبلی کے انتخابات نے کچھ قابل ذکر رجحانات اور مزید تبدیلیاں دیکھنے کو ملی۔ صوبہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی چونکہ دو دہائیوں سے اقتدار میں تھی، اس لیے اس کو اینٹی انکمبینسی کاسامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ لیکن حکومت نے چونکہ خواتین کی بہبود کے لیے کئی فلاحی اسکیمیں شروع کی تھیں، اس وجہ سے خواتین نے جم کر بی جے پی کے لیے ووٹ ڈالے۔


اس صوبہ میں 47 فیصد خواتین نے بی جے پی کو اپنا ووٹ دیا۔ صوبہ راجستھان، جہاں دیہی علاقوں میں خواتین اکثر پردے کے پیچھے رہتی ہیں، اس بار خواتین ووٹروں نے مردوں سے زیادہ ووٹنگ میں حصہ لیا۔ 74.53 فیصد مردوں کے مقابلے 74.72 فیصد خواتین نے انتخاب میں حصہ لایا۔ گزشتہ برسوں کے دوران، راجستھان میں خواتین ووٹرز کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو کہ 1962 میں 41 فیصد سے بڑھ کر 2018 میں 74 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

نیز صوبہ مدھیہ پردیش میں بھی، جہاں 1962 میں صرف 29 فیصد خواتین نے ووٹ دیا تھا، یہ تعداد 2018 میں 78 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ چھتیس گڑھ، جس نے 2003 میں اپنا پہلا اسمبلی انتخاب منعقد کیا تھا، وہاں خواتین کی شرکت 67 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2009 میں صرف 30 فیصد خواتین نے مردوں کے مشورے کے بغیر اپنی مرضی کے امیدوار کے لیے انتخاب کیا تھا، 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 54 فیصد ہو گئی۔


ماہرین اس تبدیلی کی وجہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی قیادت میں سوشل میڈیا اور تمام بیداری مہم کے اثر کو قرار دیتے ہیں۔ ان اقدامات نے خواتین کو اپنے حق رائے دہی کے بارے میں زیادہ باشعور ہونے کے لیے بااختیار بنایا ہے، جس کے نتیجے سے انتخابات میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوا ہے۔

ان دنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انتخابات کو ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہاتھوں میں ووٹر شناختی کارڈ کے ساتھ قطاروں میں کھڑے لوگوں کی رنگین تصویریں، ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے لوگ اور پھر ووٹ ڈالنے کے بعد سیلفیاں لینا سماجی طور پر مطلوبہ سرگرمیاں بن چکی ہیں، جس کے نتیجے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی اب اس میں شرکت ہوتی ہے۔


تاہم سیاسی جماعتیں خواتین کے ووٹ تو چاہتی ہیں لیکن یہ نہیں چاہتیں کہ خواتین اقتدار کے عہدوں پر ان کی نمائندہ بنیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ قانون سازی میں خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ موجودہ لوک سبھا کے کل 545 ارکان میں سے صرف 78 خواتین پر مشتمل ہے، جو کل نمائندگی کا 15 فیصد سے بھی کم ہے۔ بھارت کا سیاسی نظام بنیادی طور پر مردوں کے زیر تسلط ہے، جہاں خواتین بطور ووٹر تو تسلیم ہیں لیکن بطور سیاسی لیڈر تسلیم نہیں ہے۔

سنٹر فور دی سٹڈی آف ڈولپینگ سوسائٹیز (سی اس ڈی ایس) کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق خواتین امیدواروں کے الیکشن جیتنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے پارٹیاں ان کو ٹکٹ دینے سے کتراتی ہیں۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین ووٹرز بھی خواتین امیدواروں کو ووٹ نہیں ڈالتی ہیں۔ وہ بھی سیاسی جماعتوں کے وعدوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔


ستمبر کے مہینے میں، بھارت کی پارلیمنٹ نے خواتین ریزرویشن بل منظور کیا، جس میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستوں میں سے ایک تہائی خواتین کے لیے مخصوص رکھی گئی۔ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے لیے، یہ بل خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے۔ مگر اس کا اطلاق پانچ سال کے بعد ہوگا۔

اس سے قبل بھارتی پارلیمنٹ نے 2009 میں آئین میں ترمیم کرکے بلدیاتی اداروں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں مختص کیں تھی۔ بھارت میں پنچایتوں پر مردوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس نئے قانون کے نفاذ کے بعد ابتدائی چند سالوں کے دوران، خواتین اکثر ان نشستوں پر پراکسی امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑتی تھیں۔ ان نشستوں پر روایتی طور پر ان کے گھر کے مرد ہی مقابلہ کرتے تھے۔


تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ دیہات میں بھی رجحان بدل رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں مقامی سطح پر خواتین کی قیادت کی ایک نئی نسل ابھر کر سامنے آئی ہے۔ بہار جیسی پسماندہ صوبے میں بھی اب خواتین غیر ریزرو سیٹوں سے بھی منتخب ہو رہی ہیں۔ یہاں خواتین منتخب اراکین کا 54 فیصد بنتی ہیں جو کہ 33 فیصد کے مخصوص کوٹے سے تجاوز کر گئی ہیں۔

تبدیلی آنے میں وقت لگتا ہے۔ ابھی تبدیلیاں نچلی سطح پر ظاہر ہوتی نظر آ رہی ہیں، صوبائی اور قومی سطح پر ان کو آنے میں شاید کئی اور برس لگ جائیں گے۔ مگر یہ طے ہےکہ بھارت سیاست کی اگلی بادشاہ گر خواتین ہونگی۔ جو امیدوار ان کے کچن میں کھانا بنانے اور اس میں استعمال ہونے والے اجزا کی فراوانی کرے گا، وہ فائدہ میں رہے گا۔


یعنی حکومت سازی کے لیے کچن ایکانومی ایک اہم عنصر ثابت ہونے جا رہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ چند ماہ بعد ہونے والی عام انتخابات میں سیاسی جماعتیں خواتین کے لیے کیا سوغاتیں لے کر آتے ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ انتخابی بحث کرنے کے لیے مجھے کیا مواد میسر ہوتا ہے۔ امید ہے کہ سیاسی جماعتیں میرا مان رکھ کر بحث میں میرا پلڑا بھاری رکھنے کے لیے کچن اور خواتین کے لیے موافق وعدوں کی سوغات لے کر آئیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے.

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔