بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

جہاں بھوک ہو گی وہاں اخلاقیات، انسانیت کا وجود نہیں ہو گا۔ بھوکا آدمی صحیح یا غلط کو نہیں دیکھ سکتا وہ صرف کھانا دیکھتا ہے۔ کھانا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایک بھوکا آدمی کبھی آزاد آدمی نہیں ہوتا۔

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
user

Dw

ساحر لدھیانوی نے اپنی شہرہ آفاق نظم "مادام" میں نورِ سرمایہ کو تمدن اور تہذیب کی جلا قرار دیا اور بھوک و مفلسی کو ایسے عفریت کا نام دیا جو نہ صرف طبع انسانی سے حس لطافت کو مٹا دیتا ہے بلکہ آداب کے سانچوں میں ڈھلنے سے یک سر انکار کر دیتا ہے۔

ہم جو کبھی معاشرتی انحطاط کا رونا روتے ہیں اور کبھی گرتی ہوئی اقدار کی بات کرتے ہیں، تو کیا کبھی انفرادی سطح پر اس کے اسباب پر غور کی کوئی تحریک ملتی ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے یہ خطہ جب تک بھوک اور افلاس سے نبرد آزما رہے گا، معاشرتی آداب اور اخوت و ایثار جیسی مشکل اصطلاحات یہاں اجنبی ہی رہیں گی۔


پاکستانی آبادی کا ایک غالب حصہ، اپنی کل آمدن کا نوے فیصد تک صرف خوراک کے حصول میں خرچ کرتا ہے۔ تو ایسے میں یہ امید کیسے رکھی جائے کہ ان کے پاس اتنے وسائل اور توانائی بچتی ہو گی کہ وہ اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکیں۔

پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں بارہ ربیع الاول کا دن، ایک الگ طرح سے منائے جانے کا رواج چل پڑا ہے۔ گلیوں بازاروں کی سجاوٹ پر روایتی جوش و خروش تو اپنی جگہ مگر اب کھانوں اور پکوانوں کے اسٹال لگانے کی روایت بھی قائم ہو چکی ہے۔ کسی گلی کی نکڑ میں تازہ پوریاں تل کر بانٹی جا رہی ہوتی ہیں تو کہیں بریانی کی دیگیں دم پر رکھی ہیں اور کہیں باربی کیو بن رہا ہوتا ہے۔


تہوار سے جڑی روایت اور ثقافت کے حسن کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو جو منظر اس خوب صورتی کو گہنا رہا ہے وہ اس مفت کے کھانے پر جھپٹتے ہوئے انسانوں کا ہجوم ہے۔ ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ اسے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مل جائے۔ ایثار، صبر اور احترام کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ تو کیا اس رویے کی بنیادی وجہ صرف بھوک ہی ہے ؟

ہمارے ہاں روز مرہ زندگی میں اس طرح کے مناظر کچھ اچنبھے کی بات نہیں ہیں۔ کسی شادی بیاہ کی تقریب دیکھ لیں، کوئی سیاسی جلسہ یا پھر مخیر حضرات کی طرف سے راشن کی تقسیم۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ہاں بھوک ہی اگتی ہے، بھوک ہی بکتی ہے اور تمام سیاسی و اخلاقی نظریات بل آخر بھوک پر ہی آ کر ٹھیرتے ہیں۔


اس کا سبب جاننے کی کوشش کی جائے تو وجوہات سادہ ہیں۔ عدم تحفظ کا احساس، جو معاش کی فکر نے پیدا کیا جو کہ اب روایتی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ اس دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز صرف اور صرف بھوک ہے۔ بھوک کے آگے تمام مذاہب، انسانیت، تہذیب و تمدن بے بس ہیں۔ تمام تعلیمات، فلسفے بے کار ہیں۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو دنیا کی تمام چیزیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں، حتا کہ انسان خود بھی۔

ماہرین غذائیت کے مطابق ہمارے غصے اور بھوک کے مراکز ، دماغ میں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔ جب ایک متاثر ہوتا ہے تو دوسرا خود بہ خود متحرک ہو جاتا ہے۔ دماغ اور جسم کا رشتہ آپس میں جڑا ہوا ہے اور جو چیز ان دونوں کو ایک ساتھ رکھ سکتی ہے وہ آپ کی خوراک ہے۔ ایسے میں جب زندگی کی گاڑی کو چلائے رکھنے کی جبلی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا حصول ہی زندگی کا مقصد رہ جائے تو انسانی اوصاف کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔


کہتے ہیں کہ، بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ بھوکے آدمی کا کوئی مقام، ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ دیہاڑی دار مزدور ہے۔ یہاں چھابڑی والے سے لے کر ایک پتھر اٹھانے والے تک، روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا ایک کثیر طبقہ ہے۔ اگر وہ گھر بیٹھ گیا تو ان کے بچے بھوک سے تڑپ مر جائیں گے۔ جب انسانی ذہن ایسی فکروں میں گھل رہا ہو تو ترجیحات کی فہرست میں آداب و لطافت کا نمبر کہیں دور چلا جاتا ہے۔

بھوک بڑے پیمانے پر تباہی کا بد ترین ہتھیار ہے۔ سماجی انصاف کا پہلا لازمی جزو تمام انسانوں کے لیے خوراک ہے۔ کھانا ان تمام لوگوں کا بنیادی حق ہے جو اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ بھوک کے آگے موت سے لے کر، ہر شے کانپتی ہے۔ تمام اذیتیں بھوک سے جنم لیتی ہیں۔ ایک ایسا طاقت ور ایٹمی ملک اپنے آپ پر فخر نہیں کر سکتا، جس میں لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہوں اور اس سے زیادہ غیر محفوظ ملک اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔


گلیوں میں راج کرتی لا قانونیت، نت نئے جرائم کے قصے اور عدم تحفظ کے مارے اپنے ہی جیسے انسانوں کو بھنبوڑتے انسان، یہ سب اس معاشرے کے کینوس پر بھوک اور مفلسی کے برش سے پینٹ کیے ہوئے بد نما مناظر ہیں جس سے نجات کا کوئی حل بہ ظاہر کسی با اختیار کے پاس نہیں ہے۔

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔