میرا گناہ یہ ہے کہ میں ایک عورت ہوں

پاکستان میں خواتین کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے اور صنفی امتیاز ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔ پسماندہ علاقوں اور شہروں میں آئے دن خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد اور نا انصافی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

میرا گناہ یہ ہے کہ میں ایک عورت ہوں
میرا گناہ یہ ہے کہ میں ایک عورت ہوں
user

Dw

موٹروے زیادتی کیس، زینب قتل کیس اور نور مقدم کا بہیمانہ قتل جیسے تشویشناک واقعات بحیثیت قوم ہمارے لیے ناصرف شرمناک ہیں بلکہ اس قوم کی مجموعی سوچ اور طرزعمل پر ایک سوالیہ نشان بھی ہیں۔

سلمیٰ وانا بازار کے جنوبی طرف واقع دینی مدرسے کی طالبہ ہے۔ عمر 14 سال ہے اور ایک سال پہلے اس کی شادی 28 سالہ ابوذر سے کر دی گئی تھی۔ مدرسے میں وہ دل لگا کر پڑھتی ہے اور خوش رہتی ہے۔ کتابیں پڑھنے کے شوق نے اس کو اچھی خاصی اردو سکھا دی ہے اور اساتذہ جب اس سے سبق پڑھواتے ہیں تو کچھ حاصل کرنے کی ایک معصوم سی خوشی اس کے چہرے پر آجاتی ہے۔ چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے پریشانی اسے گھیر لیتی ہے۔ گھر کے سب کام اچھی طرح سرانجام دینے کی کوشش کے باوجود اس سے کوئی نہ کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اسے ساس اور شوہر سے بری طرح ڈانٹ پڑتی ہے۔


کچھ دنوں سے اس کے شوہر اور سسر میں ان بن ہو رہی تھی۔ اس کے شوہر نے جائیداد کے بٹوارے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ اس کے سسر کو بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔ آج جب وہ مدرسے میں تھی تو اس کے سسر بہرام خان کی اپنے بیٹے سے پھر بحث ہو گئی۔ بہرام خان نے ابوذر کو جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ابوذر غصے سے بے حال ہو رہا تھا اور اچانک ایک فیصلہ کن لہجے میں کہنے لگا، ''مجھے جائیداد میں سے میرا حصہ آج ہی دینا ہوگا ورنہ میں سلمیٰ کو طلاق دیتا ہوں۔‘‘

سلمیٰ گھر کے قریب پہنچی تو اپنی دو پھوپھیوں کو اپنے میکے کی طرف سے آتے دیکھا۔ ان کو سلام کر کے وہ گھر کے اندر قدم رکھنے ہی لگی تھی کہ ایک پھوپھی نے اس کے سر پر ایک بڑی سی چادر ڈال دی اور کہا، ''بیٹی اب یہ تمہارا گھر نہیں رہا۔ چلو، اپنے ابو کے گھر چلو۔‘‘


وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقے جو پہلے وفاق کے زیر انتظام تھے اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کے سائے تلے علاقہ غیر کی حیثیت رکھتے تھے، اب خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع کہلاتے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم بہت کم ہے اور عورت کا وجود گھر اور کھیتی تک محدود ہے۔ پورے وانا بازار میں عورت صرف ہسپتال یا ٹیکسی اسٹینڈ پر نظر آ جائے تو آجائے ورنہ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف مردوں کا معاشرہ ہے۔

جمشید ایک کرکٹر اور شکاری تھا۔ دہشت گردی کی لہر اٹھی تو اس نے بھی ایگ گروہ کا حصہ بننا بہتر سمجھا اور اس دوران دو چار لوگوں کو مارنے میں ملوث رہا۔ اس نے دو شادیاں کی تھی اور انہی بیویوں، ایک بیوہ بہن، اور ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ جن بندوں کو مارنے میں اس کا ہاتھ تھا، ان کے خاندان سے کسی بندے نے اس کو ایک دن بازار میں قتل کر دیا تھا۔ ادلے کا بدلہ ابصول کے تحت سب چپ ہو رہے۔


آٹھ دس سال گزرے تو اس کے مقتولین میں سے ایک کا بیٹا سلطان ایک دن اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا تو ایک دوست سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ اس دوست نے بغیر سوچے اس کو طعنہ دیا کہ تم تو اتنے بے غیرت ہو کہ جس بندے نے تمہارے باپ کو مارا تھا، اس کا باپ خود کھلا گھوم رہا ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ خوش ہے.

سلطان کو یہ بات بہت بری لگی، دو تین دن لگا تار سوچتا رہا۔ چوتھے دن اپنے ابا کی پرانی کلاشنکوف نکالی اور جا کر جمشید کے ابو کو اس کے کھیت میں دو گولیاں مار کر آگیا۔ جمشید کا بوڑھا باپ موقعے پر ہی مر گیا اور اس کی لاش پڑوسیوں نے دفنا دی۔ شام کے وقت اس کے گھر میں چار بیوہ عورتیں ایک ساتھ بیٹھ کر روتی رہیں۔ انہوں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھ تھا نہ ہی اپنے لیے کمانا سیکھا تھا اور کسی مرد کے بغیر گھر سے باہر نکلنا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا لیکن اب گھر میں کسی بھی مرد کی غیر موجودگی اور مستقبل کا خوف ان کی اذیت میں مزید اضافہ کررہا تھا۔


عالیہ سندھ کے علاقے گھوٹکی کے ایک چھوٹے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے اور چوتھی کلاس میں پڑھتی ہے۔ اس کے گھر میں آج جشن کا سا سماں ہے کیونکہ گھر میں گائے کا بچھڑا پیدا ہونے والا ہے ۔ اس کا بڑا بھائی زور زور سے اپنا اردو کا سبق یاد کر رہا ہے، ''ہم لوگ اپنی عورتوں کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کو اپنے گھر پر ہی کما کر کھلاتے ہیں۔‘‘ چھوٹے بچے گائے کے آس پاس گھیرا لگائے کھیل رہے ہیں ۔ ان میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ گائے کا بچھڑا نر ہوگا کہ مادہ۔ عالیہ نے دور سے آواز دی، ''میری دعا ہے کہ گائے کا لڑکا ہوجائے۔ لڑکی نہ ہو ورنہ وہ اسکول نہیں جاسکے گی۔‘‘

راولپنڈی شہر سے تیس چالیس کلومیٹر دور واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سہال کی رابعیہ روزانہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کالج جاتے ہوئے انہیں نت نئی کہانیاں سناتی ہے جو اس نے خواتین ڈائجسٹ میں پڑھی ہوتی ہیں۔ اسے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق ہے مگر وہ یہ کہانیاں اپنے گھر والوں سے چھپ کر اپنے ایک چچازاد احمد سے منگواتی ہے۔ گھر میں ہر تیسرے چوتھے دن اس کے بڑے بھائی عبداللہ کی ابا سے اس بات پر تکرار ہوتی ہے کہ رابعیہ کو کالج بھیجنے کی بجائے جلد از جلد اسے بیاہ کر رخصت کیا جائے کیونکہ اب وہ جوان ہوگئی ہے۔ ایک دن جب رابعیہ کالج سے گھر نہیں آتی تو اس کے والدین بہت پریشان ہوتے ہیں۔ سارا دن گزر جانے کے بعد بھی رابعیہ کا کچھ اتا پتا نہیں چلتا ۔ شام میں اچانک جب گھر کا دروازہ کھڑاک سے کھلتا ہے تو عبداللہ چیختا چلاتا غصے میں لال پیلا ہوتا ہوا اندر آتا ہے۔ ’’میں نے کہا تھا ناں لڑکیوں کو تعلیم نہ دو۔ اب دیکھ لیا انجام! ناک کٹوا کے چلی گئ پورے خاندان میں۔ میں اس خبیث کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘


اس واقعے کو کئی مہینے گزر گئے۔ آج رابعیہ شادی کے بعد پہلی مرتبہ اپنے گھر والوں سے ملنے جارہی ہے اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہی کہ اس کے گھر والوں نے اسے معاف کر دیا اور اس کی شادی کو قبول کر لیا۔ وہ اپنے شوہر احمد اور اپنے سسر کرم دین کے ہمراہ اپنے میکے روانہ ہوتی ہے۔ گھر کے قریب پہنچتے ہی اماں سے ملنے کا خیال اسے آبدیدہ کر دیتا ہے۔ اتنے میں سامنے سے اس کا بھائی عبداللہ نکلتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پستول ہے۔ وہ دو گولیاں بہن کے اور دو بہنوئی کے سر میں مارتا ہے اور وہ دونوں موقع پر ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پورے محلے میں شور بپا ہے۔ رابعیہ کا بےجان جسم گھر سے چند قدم دور پڑا اپنے عورت ہونے پر بین کررہا ہے اور ساتھ ہی عبداللہ کی آواز گونج رہی ہے،''میں نے کہا تھا ناں عورت کو تعلیم نہ دو۔ یہ ناک کٹوائے گی۔‘‘

اریشہ اپنے والدین اور تین بھائیوں سمیت مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہے۔ اس کا اسکول گھر سے دس کلومیٹر دور ہے اور روز اپنے بھائی قاسم کے ساتھ سائیکل پر اسکول جاتی ہے۔ اسے سائنس کی کلاس میں بہت مزہ آتا ہے۔ اس کی استانی پیار سے اسے 'منی آئن اسٹائن‘ کہتی ہے۔ وہ بھی بڑے ہوکر سائنسدان بننا چاہتی ہے۔ ایک دن جب وہ اسکول سے گھر لوٹی تو گھر پہ مہمان آئے ہوئے تھے اور کافی شور شرابا اور ہلچل تھی۔ اس کی اماں نے جلدی سے اس کا بستہ ہاتھ سے چھین کر دوسری طرف پھینکا اور اسے نئے کپڑے پہنانے لگی۔ وہ پوچھتی رہی کہ اماں کیوں تیار کررہی ہو, کون آرہا ہے, مگر اس کی ماں آج معمول کے برعکس بے حد خاموش اور پریشان دکھائی دی۔ اچانک ابا کی آواز آئی کہ مولوی صاحب آگئے ہیں. اریشہ کو جلدی بھیجو. اس کو بیٹھک میں بٹھا دیا گیا. وہ حیرت سے کبھی مولوی کو, کبھی اپنے باپ کو اور کبھی اس ادھیڑ عمر شخص کو دیکھتی ہے جو بار بار اسے گھور رہا ہے۔ مولوی کچھ عجیب وغریب سوال کر رہا ہے اور اس کا باپ اس کے کان میں بولتا ہے کہ بیٹی بولو ''قبول ہے۔‘‘ وہ باپ کی بات مٹھو توتے کی طرح فر فر دہرا دیتی ہے۔


دالان میں لوگ بیٹھے چہ منگوئیاں کررہے ہیں کہ باپ نے بیٹی کا سودا کر دیا۔ قرض نہیں چکا سکا تو بچی کو بھینٹ چڑھا دیا۔''اف خدایا، کیا ظلم کر دیا بچی پہ۔‘‘ اریشہ کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ آج اس بات پر خوش ہے کہ کئی دن بعد آج اسے مٹھائی کھانے کو مل رہی ہے۔ اس نے برفی آدھی کھا کر سامنے رکھی پلیٹ سے ایک گلاب جامن اٹھایا اور جلدی سے منہ میں ڈال کر صحن میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ برف پانی کھیلنے لگی۔

اعداد و شمار کی بات کریں تو مایوسی اور افسوس کی وجہ صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی 'گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023ء میں پاکستان کو 146 ممالک میں سے 142ویں درجے پر رکھا گیا ہے اور پاکستان سے نیچے صرف ایران، الجزائر، چاڈ اور افغانستان ہیں جبکہ 2022 ء میں پاکستان 146 میں سے 145 ویں نمبر پہ تھا۔ اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے جینڈر گیپ پر قابو پانے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں، انڈیا کا نمبر 135 سے 127 پر آچکا ہے جبکہ بنگلہ دیش 59 نمبر پر ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ خواتین کے مسائل پر توجہ دیں۔ انہیں ان کے بنیادی حقوق دیں اور ان پر ہونے والے ظلم وجبر کا خاتمہ کریں۔ تب ہی ہم بھی اپنے ملک کو ایک بہتر مستقبل کی راہ پر ڈال سکیں گے ورنہ یہ صورتحال مزید خراب ہوگی۔


مذکورہ بالا تمام واقعات کبھی کبھار رونما ہونے والی خلاف معمول کہانیاں نہیں، بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں بار بار دہرائے جانے والے واقعات ہیں۔ علاقہ کوئی بھی ہو، اور قوم کہیں کی بھی ہو، ہم سب خواتین کے معاملے میں بےحسی پہ متفق اور منافقت پہ تلے ہوئے ہیں۔ ہمیں بیٹیوں اور بہنوں سے پیار ہے لیکن رسم و رواج اور معاشرتی قیود کے اندر۔ ان کی تعلیم کا خیال ہے لیکن جب تک گھر کے افراد اور پڑوسیوں رشتہ داروں کو اعتراض نہ ہو۔ ہم اپنے گھر کی لڑکیوں اور عورتوں پہ اعتبار نہیں کر پاتے اور نہ انہیں ایک مکمل فرد سمجھتے ہوئے ان کو زندگی کا حق دے پاتے ہیں۔ حالات بہتری کی طرف بھی جاتے دکھائی دیتے ہیں کبھی کبھی لیکن وہ جذبہ اور وہ سچائی مفقود ہے کہ جس سے برملا سوچ اور رویے کی تبدیلی کا احساس ہوتا ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔