بنگلہ دیش کا بحران

ہر نئی حکومت تمام غلطیوں کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو دے کر خود نئے بحران پیدا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکمران طبقوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ بنگلہ دیش کا بحران بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

بنگلہ دیش کا بحران
بنگلہ دیش کا بحران
user

Dw

1970ء کے الیکشن میں سابق مشرقی پاکستان سے جب عوامی لیگ اکثریت کے ساتھ جیتی اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی تو قانون اور دستور کے تحت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کر دینا چا ہیے تھا۔ لیکن اس میں پیپلزپارٹی نے رکاوٹ ڈالی۔ پہلے نیشنل اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اور جب نیشنل اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا گیا تو اوّل بھٹو نے یہ کہا کہ پہلے مجیب الرحمن کے چھ نکات پر بحث ہونی چاہیے اور پھر مغربی پاکستان کے نمائندوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ اجلاس میں گئے تو اُن کو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے۔ اس دوران یہ کوششیں ہوتی رہی کہ سیاست دانوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جائے۔ اس سلسلے میں مجیب اور بھٹو کی ایک ملاقات میں یہ تجویز دی گی کہ مجیب الرحمن وزیراعظم ہو جائیں اور بھٹو ملک کے صدر لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجیب کو یہ تجویز پسند نہ آئی۔ اور اُس نے واپس ڈھاکہ جاکر ریس کورس کے گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے 7مارچ 1971ء کو مزید چار نکات پیش کیے جو یہ تھے۔

.1 مارشل لاء کا فوری خاتمہ .2 فوجیوں کی چھاؤنیوں میں فوری واپسی .3 ہوچکے جانی نقصان کی انکوائری کی شروعات .4 اقتدار کو منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے۔


مجیب الرحمن نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ بنگالیوں کو مزاحمت کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ہر بنگالی کے گھر کو مسلح ہو کر مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس مرحلے پر بات چیت کا سلسلہ ختم ہوا۔ اور مارشل لاء حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ بنگلہ دیش میں سیاسی اِنتشار ہے۔ حکومت کا نظم و ضبط ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے اس کا فوری حل فوجی مداخلت ہے۔

لہٰذا 25 مارچ 1971ء کو ''سرچ لائٹ‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی گئی۔ لیکن جب ایک بحری جہاز اسلحہ لے کر چٹا گانگ کی بندر گاہ پہنچا تو وہاں پر کام کرنے والے بنگالیوں نے اسلحہ اتارنے سے انکار کر دیا۔ بنگال کی پولیس اور بنگالی رائفل نے بھی بغاوت کردی اور عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا 25- 26مارچ 1971ء کی رات تقریباً ڈیڑھ بجے مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس خبر کو مکتی باہنی نے اپنی ریڈیو نشریات کے ذریعے پورے ملک میں پھیلا دیا۔ جس کی وجہ سے پورے سابق مشرقی پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس میں بنگالی، بہاری لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی خوب جانی نقصان ہوا۔


حمودالرحمن کمیشن جو دسمبر 1971ء میں قائم ہوا تھا۔ اس نے بنگلہ دیش بحران کی تحقیق کرتے ہوئے مستند ماخذوں کی بنیاد پر جو پہلی رپورٹ پیش کی اس میں تین عناصر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا یعنی فوجی کمان ،سیاستدانوں کا تنازع اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی۔

اس رپورٹ کو 1974ء میں پیش کیا گیا اس رپورٹ میں ڈھاکہ میں لوگوں کے قتل عام کی تصدیق کی گئی۔ اور فوجی مداخلت اور سیاستدانوں کے منفی کردار کی بھی نشاندہی کی گئی۔ لیکن اس رپورٹ کو شائع نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پاکستانی فوج کا کردار مجروح ہوتا تھا۔ اس رپورٹ کی 12عدد کاپیاں تھیں۔ لیکن صرف ایک کاپی کو رکھا گیا اور باقی گیارہ کاپیوں کو ضائع کر دیا گیا۔


اس کی سپلیمنٹری رپورٹ میں بھی ڈھاکہ میں ہونے والے عوامی مظالم کی وجہ پاکستانی فوج کو قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ میں مکتی بہانی کے مظالم کا بھی تذکرہ ہے جو اس نے بہاریوں اور غیر بنگالیوں پر کئے تھے۔ پہلی رپورٹ اور سپلیمنٹری رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کی اس جنگ میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کے ماہرین اور طالب علموں کو مارا گیا اور اُن کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔

یہ سلسلہ قتل و غارت گری یہاں پر نہیں رُوکا بلکہ پاکستان کی فوج میں جو بنگالی فوجی افیسرز تاجر اور سرمایہ دار تھے جو صنعتکار تھے اُن کو قتل کر نے کے علاوہ بہت سے عورتوں کی ابرو ریزی بھی کی گئی۔


بنگلہ دیش کے بحران میں جن تین افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اُن کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں مجیب الرحمن کی ذمہ داری کم ہے۔ کیونکہ وہ بنگلہ دیش کا مقبول راہنما تھا۔ اس حیثیت سے وہ بنگلہ دیش کے لوگوں کا تحفظ چاہتا تھا۔ اس کی حمایت میں بنگلہ دیش کے عوام کی پوری طاقت تھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بھٹو ذاتی اقتدار کے خواہش مند تھے۔ اور کسی سمجھوتے پر تیار نہیں تھے۔ جبکہ یحییٰ خان اور فوج نے بنگلہ دیش کے بحران کو طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہا۔ حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اُن فوجی کمانڈروں کا ذکر کیا ہے۔ کہ جن پر مقدمہ چلانا چاہیے تھا۔ مگر کسی پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ بلکہ جب واپس مغربی پاکستان آئے تو اُن کا بطور ہیرو استقبال کیا گیا۔ لہٰذا بنگلہ دیش کے بحران کی ذمہ داری پاکستانی قوم کی بھی ہے۔ جس نے بنگلہ دیش میں فوجی مداخلت اور بنگالیوں کے قتل عام پر کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ اس کی حمایت کی ۔ فوجی مداخلت پر بھٹو کا یہ جملہ قابل ذکر ہے کہ ''خدا کا شکر ہے کہ پاکستان محفوظ ہو گیا‘‘

پاکستان کی تاریخ میں بھی بنگلہ دیش کی علیحدگی اور آزادی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ نصابی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش کے المیے سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اس کی تاریخ کو اب بھی ہم بار بار دھرا رہے ہیں۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔