اوپیک پیداوار میں یکدم کمی کا فیصلہ، تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں

تیل کی پیداوار یومیہ ایک ملین بیرل سے زیادہ کم کردی جائے گی، اکتوبر میں اوپیک کی جانب سے یومیہ دو ملین بیرل کم کرنے کے فیصلے کے بعد سے یہ پیداوار میں اب تک کی سب سے بڑی کٹوتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

پیر کے روز صبح کے وقت ایشیا اور اوشیانا میں کاروبار کے لیے مارکیٹ کھلنے کے ساتھ ہی تیل کی قیمتوں اور مستقبل کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔ ایسا سعودی عرب، عراق اور دیگر خلیجی ریاستوں کی جانب سے اتوار کے روز اچانک اس اعلان کی وجہ سے ہوا کہ وہ تیل کی پیداوار میں سابقہ منصوبے کے مقابلے کہیں زیادہ کمی کررہے ہیں۔

پیر کے روز یورپ اور امریکہ میں مارکیٹ کھلنے کے بعد تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ برینٹ خام تیل کی قیمتوں میں 6 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 85.05 ڈالر فی بیرل ہو گیا۔ امریکی ویسٹ ٹیکساس کروڈ انڈکس بھی 4.88 ڈالر بڑھ کر 80.55 ڈالر ہو گیا۔


تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کا کہنا ہے کہ پیداوار میں کمی کرنے کا فیصلہ مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے "احتیاطی" اقدام کے طور پر کیا گیا ہے۔

تیل کی پیداوار میں کمی کے مضمرات

مئی سے رواں برس کے اواخر تک پیداوار میں یومیہ ایک ملین بیرل سے زیادہ کی کٹوتی ہو گی۔ جو کہ اکتوبر میں اوپیک کی جانب سے یومیہ دو بیرل میں کٹوتی کے فیصلے کے بعد سے سب سے بڑی کٹوتی ہے۔


تیل درآمد کرنے والے، بالخصوص کم دولت مند ملکوں کے لیے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان کے مالیات کو شدید طور پر متاثر کریں گی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ تیل کے استعمال میں زبردست کمی کا کوئی امکان نہیں ہے، انہیں اجناس کے لیے بھی فی بیرل بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں شاید اپنی کرنسی کے بجائے امریکی ڈالر میں اضافی رقم ادا کرنا پڑے۔

اوپیک نے اپنی پیشن گوئی میں کہا ہے کہ سن 2023 میں عالمی تیل کی مانگ 2.3 بیرل یومیہ بڑھ کر اوسطاً 101.87بیرل ہو جائے گی۔


امریکہ سعودی تعلقات میں کشیدگی

اوپیک گروپ کے ایک رکن روس نے کہا کہ وہ رضاکارانہ طورپر روزانہ پانچ لاکھ بیرل کٹوتی کرے گا۔ تیل کی اونچی قیمتوں سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو مدد ملے گی جنہوں نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ روس یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد تیل کی برآمدات پر عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے اپنے سابقہ کئی ایکسپورٹ مارکیٹ بالخصوص یورپی یونین سے محروم ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تجارتی شراکت داروں کی تعداد محدود ہوگئی ہے اور وہ زیادہ تیل فروخت نہیں کرسکتا۔

امریکہ سعودی عرب اور دیگر اتحادیوں پر پیداوار بڑھانے کے لیے زور دے رہا ہے تاکہ قیمتیں کم ہو سکیں اور روس کو زیادہ مالی نقصان پہنچایا جاسکے، تاہم اس میں اسے کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اوپیک کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک کے طور پر سعودی عرب نے یومیہ پانچ لاکھ بیرل کی سب سے بڑی کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سن 2022میں سعودی عرب کی یومیہ 11.5ملین کی اوسط پیداوار کا پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔


اوپیک ممالک کے دیگر اراکین میں سے عراق نے یومیہ دو لاکھ گیارہ ہزار بیرل، متحدہ عرب امارات نے ایک لاکھ 44 ہزار بیرل، کویت نے ایک لاکھ 28 ہزار بیرل، قازقستان نے 78000 بیرل، الجزائر نے 48000 بیرل اور عمان نے 40000 بیرل پیداوار کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اکتوبر میں تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کا اعلان ایسے وقت کیا گیا تھا جب امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے تھے اور قیمتوں میں اضافہ ملکی سیاست میں ایک اہم موضوع تھا۔ صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کے"مضمرات" ہوں گے۔ بعض امریکی قانون سازوں نے تو امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک سعودی عرب کے ساتھ تعاون کو منجمد کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔