’آن لائن جسم فروشی‘ کا پھیلتا کاروبار!

عالمی سطح پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق فیس بُک اور ’ٹنڈر‘ جیسی ایپلی کیشنز ’آن لائن جسم فروشی‘ اور جنسی استحصال کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ رپورٹ ایک فرانسیسی تنظیم نے جاری کی ہے۔

موبائل ایپس اور سوشل میڈیا: ’آن لائن جسم فروشی‘ کا پھیلتا کاروبار
موبائل ایپس اور سوشل میڈیا: ’آن لائن جسم فروشی‘ کا پھیلتا کاروبار
user

ڈی. ڈبلیو

جسم فروشی کا کاروبار اب ’گلیوں سے نکل کر انٹرنیٹ‘ پر منتقل ہو چکا ہے جہاں جرائم پیشہ دلال انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسی موبائل ایپس کے ذریعے جسم فروشی کے لیے نوجوان لڑکیوں کو بھرتی کرتے ہیں اور اس کے بعد ’ایئر بی اینڈ بی‘ جیسی ایپ کے ذریعے مکان کرائے پر حاصل کر کے ان سے جسم فروشی کراتے ہیں۔ یہ رپورٹ فرانسیسی تنظیم ’سیلے فاؤنڈیشن‘ نے تیار کی ہے جو جسم فروشی کے انسداد کے لیے سرگرم ہے۔

’جنسی استحصال، نئے مسائل اور نئے حل‘ نامی اس رپورٹ میں پینتیس سے زائد ممالک میں آن لائن جسم فروشی کے رجحانات کا جائزہ لیا گیا۔


رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ اسرائیلی ڈیٹنگ ایپ ’ٹنڈر‘ کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ زیمبیا جیسے ممالک میں نوجوان طالب علم واٹس ایپ اور فیس بُک گروپس کے ذریعے جسم فروشی کرنے والی خواتین اور دلالوں سے با آسانی رابطے کرتے ہیں۔

فرانس میں جرائم پیشہ گینگ ’ہائی اسکولوں اور ویلفیئر ہومز‘ کی نابالغ لڑکیوں سے فیس بُک اور سنیپ چیٹ جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی مدد سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر انہیں ’آسانی سے رقم کمانے کے مواقع‘ فراہم کرنے کے وعدے کر کے انہیں جسم فروشی کی ترغیب دیتے ہیں۔


فرانسیسی تنظیم نے یہ بھی بتایا ہے کہ جسم فروشی کی ترغیب کی لیے اشتہارات صرف ڈیٹنگ ویب سائٹوں اور اس موضوع سے متعلقہ آن لائن گروپوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر ویب سائٹس پر بھی جاری کیے جاتے ہیں۔

’سیلے فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ اِیف شارپینے کا اس ضمن میں کہنا تھا، ’’چین جیسے ممالک، جہاں سخت کنٹرول ہے سے لے کر جرمنی جیسے ممالک، جہاں قوانین نرم ہیں، ان سبھی ممالک ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آن لائن جسم فروشی کے دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے باوجود نابالغ لڑکیوں سے جسم فروشی کرانے والے ملزموں کا سراغ لگانا مشکل کام ہے۔ ایسے افراد عام طور پر آن لائن شناخت چھپا کر رکھتے ہیں اور ان کے اشتہارات بھی مبہم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نشان دہی نہیں ہو پاتی۔


حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر کی حکومتوں کو انٹرنیٹ پر آزادی اظہار یقینی بنانے اور لوگوں کو ان کے شائع کردہ مواد پر ذمہ دار ٹھہرانے کے مابین توازن قائم رکھ کر قانون سازی کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Jun 2019, 7:00 AM