ہالينڈ ميں برقع پر پابندی کا ايک سال، مسلمانوں کو تشدد اور امتيازی رويوں کا سامنا

ہالينڈ ميں برقع پہننے پر پابندی ايک سال پہلے لگائی گئی تھی۔ اس دوران اس يورپی رياست ميں رہائش پذير مسلمان برادری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف امتيازی رويوں اور تشدد ميں اضافہ محسوس کيا ہے۔

تصویر ڈی ڈبلو
تصویر ڈی ڈبلو
user

ڈی. ڈبلیو

ايمسٹرڈم کے مغربی حصے ميں بوس اين لومرپلائن چوراہے پر کھڑی عمارہ الگ ہی دکھائی ديتی ہے۔ اس نے برقع پہن رکھا ہے، جو بارش ميں بھيگ چکا ہے۔ عمارہ کہتی ہے، ''لوگ سمجھتے ہيں کہ يہ برقع ميں اپنے خاوند کے کہنے پر پہنتی ہوں مگر جب ميں نے برقع پہننا شروع کيا، اس وقت ميں غیر شادی شدہ تھی۔‘‘ عمارہ کے بقول برقع پہننے والوں کو 'دشمن‘ کے طور پر ديکھا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ يہ اسے تنہائی کا احساس دلاتا ہے، جيسے اسے کسی کنارے دبايا جا رہا ہو۔ ''يہ نا انصافی ہے۔ مجھے امتيازی سلوک کا سامنا ہے، صرف ميرے مذہب اور ميرے انتخاب کی وجہ سے۔‘‘

ہالينڈ ميں برقع پر پابندی


ہالينڈ ميں گزشتہ برس يکم اگست کو برقع پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ فرانس اور بيلجيئم ميں بھی چہرہ مکمل ڈھانپنے يا برقع پر پابندياں نافذ ہيں مگر ہالينڈ ميں متعارف کردہ پابندی ذرا مختلف ہے۔ ہالينڈ ميں پبلک ٹرانسپورٹ، سرکاری دفاتر، اسکولوں اور ہسپتالوں ميں برقع پہننا منع ہے مگر عوامی مقامات و سڑکوں پر برقع پہننے ميں کوئی حرج نہيں۔

ہالينڈ ميں عوام کی سلامتی کا معاملہ کھڑا کر کے برقع پر پابندی کی تحريک چودہ برس قبل سے جاری تھی۔ اس مہم کو انتہائی دائيں بازو کی اسلام مخالف تنظيم پارٹی فار فريڈم کے رہنما گيئرٹ ولڈرز نے شروع کيا تھا۔ يکم اگست سن 2019 سے عائد قانون کے تحت چہرے کا نقاب نہ ہٹانے يا حکام کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر ڈيڑھ سو سے ساڑھے چار سو يورو کا جرمانہ ہے۔ ڈچ پوليس کے مطابق اب تک شاذ و نادر ہی کسی پر يہ جرمانہ عائد کيا گيا ہے۔


مسلمانوں کے خلاف رويوں ميں سختی

عمارہ کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ عوامی مقامات پر برقع پہننے کے اجازت ہے مگر لوگ پہلے کے مقابلے ميں زيادہ جارحانہ رويہ اختيار کرتے جا رہے ہيں۔ اس کے بقول پابندی سے قبل جب کبھی وہ خريداری کے ليے سپر مارکيٹ وغيرہ جايا کرتی تھی تو لوگ اسے اپنے سے دور کرنے يا جگہ مانگنے کے ليے شاپنگ کارٹ سے اسے دھکا ديا کرتے تھے۔ ''اب لوگوں کا رد عمل زيادہ جارحانہ ہے۔ ايک شخص نے تو مجھے گاڑی سے مارنے کی کوشش بھی کی۔‘‘


ڈچ عوام کی رائے منقسم

آنے اور ٹروس پوسٹاما مغربی ايمسٹرڈيم کی ايک مارکيٹ ميں بيٹھی چائے پی رہی ہيں۔ يہ مارکيٹ تارکين وطن ميں کافی مقبول ہے۔ مگر ان دونوں بہنوں کا کہنا ہے کہ پابندی کے بعد اس محلے ميں کچھ نہيں بدلا۔ ان کے بقول بہت کم لوگ ہی مکمل چہرہ ڈھانپتے ہيں۔


قريب ہی ليلی بيٹھی ہيں۔ وہ البتہ پابندی سے خوش ہيں۔ ''نقاب بہت زيادہ ہے۔ آپ ايک يورپی ملک ميں رہ رہے ہيں، آپ کو اپنا چہرہ يوں چھپانے کی کيا ضرورت ہے؟ ميں نے بھی اسکارف پہن رکھا ہے، بس يہ کافی ہے۔‘‘

سٹی کونسل ميں کام کرنے والے اطالوی صومالی ورکر گوئيليو بنوٹی بھی نئے قانون سے مطمئن ہيں۔ ''برقع عورت کی اہميت کی نفی کرتا ہے، جيسے وہ ہيں ہی نہيں۔‘‘


مسلمان اب ہالينڈ ميں خوش آمديد نہيں

ہالينڈ دنيا بھر ميں آزاد خيالی کے ليے مشہور ہے ليکن عمارہ کا کہنا ہے کہ اس ملک ميں برداشت کا مادہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ برقع پر پابندی سے متعلق قانون کو 'اسلام پر حملہ‘ تصور کرتی ہيں اور يہ بھی کہ يہ قانون ان کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، جو کہ ڈچ آئين انہيں فراہم کرتا ہے۔


ايک اندازے کے مطابق پورے کے پورے ہالينڈ ميں صرف ڈيڑھ سو کے لگ بھگ خواتين برقعہ پہنتی ہيں يا چہرہ پر مکمل نقاب کرتی ہيں۔ صفا تيس سالہ مسلم خاتون ہيں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ ہالينڈ ميں يہ پابندی مسلمانوں ميں خوف کا باعث بنی۔ صفا کا کہنا ہے کہ اسی سبب ان کی کئی سہيلياں اب ديگر ممالک منتقل ہو گئی ہيں۔

عمارہ اور ديگر مسلمان خواتين کو کووڈ انيس کی وبا کی وجہ سے متعارف کردہ احتياطی تدابير ميں اب ايک طنز سا دکھائی ديتا ہے۔ ہالينڈ ميں پبلک ٹرانسپورٹ پر چہروں پر ماسک پہننا لازم ہے مگر عمارہ کا کہنا ہے کہ صحت عامہ کے ليے ايک عمل قبول ہے مگر مذہبی عقائد کے ليے نہيں۔ عمارہ تنہا نہيں۔ ہالينڈ ميں کئی ادارے متحرک ہيں کہ برقع پر پابندی ختم کی جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Aug 2020, 7:10 AM