بھارت: ایک طرف کورونا کی مار دوسری طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار

علاج پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اپنے رشتہ دار کی موت سے دل شکستہ سندیپ (تبدیل شدہ نام) پر ایک اور مصیبت ٹوٹ پڑی جب لاش لے جانے کے لیے انہیں ایمبولنس والے کو ایک لاکھ بیس ہزار روپے دینے پڑے۔

بھارت: ایک طرف کورونا کی مار دوسری طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار
بھارت: ایک طرف کورونا کی مار دوسری طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار
user

Dw

بھارت میں ایسے وقت جب کہ ہر کوئی کورونا کے قہر سے پریشان ہے، کچھ لوگوں نے اسے پیسے کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ دواؤں سے لے کر انجکشن تک اور ایمبولنس سے لے کر آخری رسومات ادا کرنے تک ہر جگہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ دوائیں اور آکسیجن گھر پر سپلائی کرنے کے نام پر دھوکہ دہی کے واقعات بھی مسلسل ہو رہے ہیں۔

350 کلومیٹر کی دوری، کرایہ ایک لاکھ بیس ہزار


دہلی پولیس نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہے جس نے دہلی کے نواح گروگرام سے لدھیانہ تک ایک لاش کو لے جانے کے لیے اس کے عزیزوں سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے وصول کیے تھے۔ ملزم نے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن بڑی منت سماجت کے بعد بیس ہزار روپے کم کرنے پر تیار ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملزم پیشے سے ڈاکٹر ہے۔

دہلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر اروجا گوئل نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''میموہ کمار بندیلوال ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ وہ جنوبی دہلی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ملازم تھے لیکن دو برس قبل ملازمت چھوڑ کر ایمبولنس سروس کمپنی شروع کر دی۔ بندیلوال گزشتہ ایک ماہ سے مریضوں کے رشتہ داروں سے بہت زیادہ کرایہ وصول کر رہے تھے اور اس طرح سینکڑوں افراد کو دھوکہ دے چکے ہیں۔‘‘


متاثرہ شخص نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں جب اپنے رشتہ دار کی لاش لے جانے کے لیے ہسپتال میں ایمبولنس نہیں ملی، تو دہلی کی ایک کمپنی سے رابطہ کیا۔ بندیلوال نے گروگرام سے لدھیانہ تک جانے کے لیے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ بہر حال وہ بعد میں بیس ہزار روپے کم کرنے پر راضی ہو گئے۔

لوٹ، لوٹ اور لوٹ


بھارتی دارالحکومت دہلی میں لوگوں کو ہسپتالوں سے لاشوں کو شمشان گھاٹوں یا قبرستانوں تک لے جانے کے لیے ایمبولنس والوں کو ہزاروں روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ ایمبولنس والے آٹھ سے دس کلومیٹر کی دوری کے لیے بھی بیس سے پچیس ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ لاش کو ایمبولنس پر رکھنے کے لیے الگ سے پیسے دینے پڑ رہے ہیں۔ گوبند پورم کے امیت گپتا بتاتے ہیں کہ ایمبولنس والے نے اپنے دو دوستوں کو بلا کر لاش کو ایمبولنس پر رکھوانے کے عوض سات سات ہزار روپے فی کس وصول کر لیے۔


وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں عوام سے 'آپدا میں اوسر‘ (مصیبت میں موقع) تلاش کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ پر عوام کے ساتھ سیاسی جماعتیں بھی مودی کو طنز کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

کانگریس کے سینئر رہنما اور ترجمان رندیپ سرجے والا نے ایک ٹوئیٹ کرکے کہا، ''لُوٹ، لُوٹ اور لُوٹ۔ یہی کر رہی ہے مودی سرکار! کیا آپدا میں لوٹ اسی طرح جاری رہے گی؟ اب کورونا کی ویکسین پر بھی پانچ فیصد ٹیکس! کچھ تو رحم کرو مودی جی، بھگوان آپ کو معاف نہیں کرے گا!‘‘


دواؤں کی بلیک مارکیٹنگ

جب سے کورونا وائرس کی دوسری لہر آئی ہے، بعض دواؤں کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہو گئی ہے۔ کورونا کے مریضوں کو دیے جانے والے انجیکشن ریمڈیسور کی بلیک مارکیٹ میں قیمت بیس ہزار روپے عام بات ہے۔ بعض پریشان حال افراد اپنے مریضوں کی جان بچانے کے لیے ایک انجکشن پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک میں خریدنے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔


دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ریمڈیسور کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کئی افراد کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوٹ کھسوٹ کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر چنمئے بسوال کا کہنا تھا کہ پولیس نے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے والوں پر نگاہ رکھنے کے لیے کئی ٹیمیں بنائی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہم فرضی خریدار بنا کر دوا کی دکانوں میں بھیجتے ہیں۔ ہماری ٹیمیں ہسپتالوں کے باہر بھی تعینات ہیں۔ ہم نے اب تک کم از کم 91 افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘


طبی آلات کئی گنا زیادہ قیمتوں پر دستیاب

ان دنوں سب سے زیادہ مانگ آکسیجن گیس سلنڈر کی ہے اور دھوکے باز اس کا خوف فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر گنگاسہائے مینا نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا، ''لوگ آکسیجن کی کمی سے مر رہے ہیں ایسے میں پریشان لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ منافع کما رہے ہیں۔ ضروری طبی آلات من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر کچھ لوگ مریضوں کے رشتہ داروں سے بیڈ دلانے اور آکسیجن وغیرہ کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ کے فرار ہو رہے ہیں۔ سوچیے اگر کوئی چور مریض کی دوا کے پیسے لے کر بھاگ جائے تو کیسا لگے گا۔‘‘


دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے معاملات کے خلاف اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں شکایت درج کرانے کے لیے ہی کئی تھانوں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔

کورونا پازیٹیو کے مریضوں میں آکسیجن کی سطح معلوم کرنے کے لیے استعمال ہونے والا آلہ آکسی میٹر بھی کئی گنا زیادہ قیمت میں فروخت ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ایک نمائندے کا کہنا ہے کہ اسے خود بھی مجبورا ً یہ آلہ ڈھائی ہزار وپے میں خریدنا پڑا، جو کہ عام طورپر آٹھ سو روپے میں ملتا ہے۔


آکسیجن سلنڈر کی ذخیرہ اندوزی اور آکسیجن کنسنٹریٹرز کی بلیک مارکیٹنگ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ وسطی دہلی کے مشہور علاقے خان مارکیٹ میں پولیس نے جمعے کے روز نونیت کالرا نامی ایک شخص کے ریستوراں 'خان چاچا‘ پر چھاپہ مار کردرجنوں آکسیجن کنسنٹریٹرز ضبط کیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔