جرمنی میں دیوالیہ ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ

وفاقی جرمنی کے دفتر شماریات کے مطابق افراد اور کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کی درخواستوں کی تعداد میں جون کے بعد سے دوہرے ہندسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگست کے بعد دیوالیہ ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

جرمنی میں دیوالیہ ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
جرمنی میں دیوالیہ ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
user

Dw

جرمن وفاقی دفتر شماریات(ڈیسٹاٹس) نے منگل کے روز اپنی سالانہ رپورٹ کی ابتدائی تفصیلات شائع کی ہیں، جس کے مطابق جرمنی میں دیوالیہ ہوجانے کا اعلان کرنے والے کاروباری اداروں اور افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈیسٹاٹس کے اعدادو شمار کے مطابق اکتوبر 2022 کے مقابلے اکتوبر 2023 میں دیوالیہ پن کی درخواستوں میں 22.4 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ستمبر میں اس تعداد میں 19.5 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ ماہرین شماریات کا کہنا ہے کہ جون سے مسلسل دوہرے ہندسے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔


تاہم اس طرح کے اتار چڑھاو کے حقیقی وقت کا تعین کرنا ذرامشکل ہے کیونکہ درخواستوں کی پروسیسنگ میں کئی مہینوں کا وقت لگ جاتا ہے۔ ڈیسٹاٹس نے مزید کہا کہ یہ اعدادو شمار صرف ان کمپنیوں کے متعلق ہیں جو دیوالیہ قرار دیے جانے کے منظم عمل کے فریم ورک کے تحت کاروبار سے باہر ہوجاتی ہیں، نہ کہ ان کمپنیوں کے متعلق ہیں جو اپنے بلوں کی ادائیگی میں ناکامی یا دیگر وجوہات کی وجہ سے جبری دیوالیہ کا شکار ہوں۔

جرمنی میں 'دیوالیہ پن کی سونامی نہیں'

بڑھتے ہوئے رجحان کے باوجود، جس میں مجموعی کمزور معیشت کی وجہ سے جزوی طورپر اضافہ ہوا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں ملک بھر میں دیوالیہ پن کی کسی سونامی کا خدشہ نہیں ہے۔وہ اس رجحان کو ایسے کاروباروں کی فطری کمی قرار دیتے ہیں جو مستقبل کے لیے خود کو تیار نہیں رکھتیں۔


جرمن رجسٹرڈ ایسوسی ایشن آف سالوینسی ایڈمنسٹریٹرز (وی آئی ڈی) کے چیئرمین کرسٹوف نائیرنگ نے گزشتہ ہفتے برلن میں کہا تھاکہ،"سالانہ 30000 سے زائد دیوالیہ پن کے باوجود ہم سن 2000 کی دہائی کے اوائل کی طرح چھلانگیں نہیں دیکھیں گے۔"

نائیرنگ کے مطابق کمپنیوں کا اپنے لیے مدد طلب کرنا مناسب ہے لیکن انہوں نے کہا کہ،"مخصوص صلاحیتوں والے مزدوروں کی قلت اور آبادی کے رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کاروباروں کو جان بوجھ کر ہٹانا کتنا ضروری ہے، جن کا مستقبل کے لیے قابل عمل کوئی کاروباری تصور نہیں ہے۔"


انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی وبا اور توانائی کے بحران کے دوران جبری دیوالیہ کے بارے میں ریاستی مدد اور نرمی کے قوانین نے کمپنیوں کو مصنوعی طورپر بہتر دکھایا تھا لہذا اب یہ دیوالیہ پن میں اضافہ ہونا معمول کی بات ہے۔

وفاقی دفتر شماریات کا کہنا ہے کہ تجارتی دیوالیہ پن میں اگست میں ایک تہائی سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ 1556 کاروبار یا افراد نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا جو کہ ایک سال قبل یعنی اگست 2022 کے مقابلے میں 35.7 فیصد زیادہ ہے۔ اگست 2023 میں قرض دہندگان پر واجب الادا کل تجارتی قرض کا تخمینہ تقریباً 1.8 بلین یورو تھا جو کہ 2022 کے مقابلے میں ایک بلین یورو زیادہ ہے۔


اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دیوالیہ قرار دیے جانے کے لیے درخواست دینے والی کمپنیوں میں سب سے زیادہ (9.9 فیصد) متاثر ہونے والی کمپنیوں کا تعلق نقل و حمل اور اسٹوریج کے شعبوں سے تھا۔ اس کے بعد سروس انڈسٹری (سات فیصد) کا نمبر ہے۔ وی آئی ڈی کے کرسٹوف نائیرنگ نے متنبہ کیا کہ یہ رجحان ان کاروباروں کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے جیسے بہت زیادہ توانائی استعمال کرنے والے کاروباروں کو بھی متاثر کرتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کنسٹرکشن اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں کے بھی آئندہ دیوالیہ ہونے کے امکانات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ،"زیادہ شرح سود اور نمایاں طور پر کم مانگ ڈیولپرز پر دباو ڈالے گی اور جلد ہی چھوٹی تعمیراتی کمپنیوں کو بھی نشانہ بناسکتی ہے۔" رپورٹ کے مطابق سب سے کم (0.6 فیصد) متاثر وہ کاروباری یا افراد ہوئے جن کا تعلق توانائی کی پیداوار کے شعبے سے تھا۔ ماہرین شماریات کے مطابق اگست میں دیوالیہ قرار دینے کے لیے 5843 درخواستیں موصول ہوئیں جو کہ 8.6 فیصد اضافہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔