ترکی: ایردوآن 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے، 'رن آف' میں فیصلے کا امکان

ترکی میں صدارتی انتخابات میں صدر رجب طیب اردوآن 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے ہیں جس کے بعد اب 28 مئی کو انتخابات کے دوسرے مرحلے یعنی 'رن آف' میں فیصلے کا امکان ہے۔

ترکی: ایردوآن 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے، 'رن آف' کا امکان
ترکی: ایردوآن 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکے، 'رن آف' کا امکان
user

Dw

سپریم الیکٹورل بورڈ کے سربراہ احمد ینر نے کہا کہ ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ رجب طیب اردوآن نے 49.51 فیصد ووٹ حاصل کیے، ان کے اہم حریف کمال کلیک دار اوگلو نے 44.88 فیصد اور تیسرے امیدوار سینان اوگن نے 5.17 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ینر نے کہا کہ اگر تمام غیر گنتی ووٹ مسٹر رجب طیب اردوآن کے پاس جاتے ہیں، تب بھی ان کے ووٹ 49.54 فیصد تک ہی پہنچ پائیں گے۔

تاہم حکمراں جمہوری اتحاد نے 600 نشستوں والی ترکی کی پارلیمان میں 323 سیٹیں جیت لی ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی میں صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 50 فیصد سے زائد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔


انتخابی نتائج کی آمد کے دوران69 سالہ صدر ایردوآن نے انقرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی یہ کانٹے دار مقابلہ جیت سکتے ہیں لیکن پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے اور دوسرے مرحلے کے لیے میدان میں اترنے کو تیار ہیں۔

گزشتہ 20 برسوں سے مسلسل فتح حاصل کرنے والے ایردوآن نے کہا کہ گوکہ وہ اب بھی واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہیں لیکن "اگر ہماری قوم نے دوسرے مرحلے میں جانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس فیصلے کا بھی خیر مقدم۔"


ایردوآن کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انتخابات میں گنتی کا عمل مکمل ہونے کو تھا۔ لیکن غیر سرکاری نتائج کے مطابق ان کو ملنے والے ووٹوں کی شرح حکومت بنانے کے لیے مطلوب پچاس فیصد سے کم ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں 28 مئی کو دوبارہ انتخابات کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

دوسری طرف چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار74سالہ کمال قلیچدار اولو کا کہنا تھا کہ ایردوآن نے قوم کا اعتماد کھو دیا ہے اور قوم اب تبدیلی کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم دوسرے راونڈ میں یقینی طور پر کامیاب ہوں گے اور ملک میں جمہوریت لائیں گے۔"


ہیرا پھیری کا الزام

مبصرین کے مطابق یہ ایردوآن کے بیس سالہ اقتدار کے دوران سب سے مشکل انتخاب ہے۔ حزب اختلاف کے امیدوار اولو نے انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کا الزام عائد کیا۔ ان کے مطابق ایک وقت تک انہیں انتخاب میں سبقت حاصل تھی۔ حزب مخالف کی جماعتوں نے سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو پر تعصب برتنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

ایردوان کی اے کے پارٹی کے ترجمان عمر چیلک نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے انادولو پر لگائے جانے والے الزامات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ ترکی کی الیکشن اتھارٹی، سپریم الیکٹورل بورڈ نے کہا کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو ایک ایک لمحے کی اطلاعات فراہم کر رہا ہے اور جیسے ہی ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گی اس کے نتائج عام کر دیے جائیں گے۔


اس دوران پارلیمانی انتخابات میں ایردوآن کی اے کے پارٹی نے اب تک 50 فیصد سے زائد نشستیں جیت لی ہیں جب کہ اولو کا قومی اتحاد 35 فیصد ووٹ حاصل کر سکا ہے۔

ترکی کے لیے اس انتخاب کی اہمیت

ترکی میں ہونے والے انتخابات کو جدید ترکی کی 100 سالہ تاریخ کے اہم ترین انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے نتائج نہ صرف رجب طیب ایردوآن کی صدارت کا خاتمہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کی حکومت کے بڑھتے ہوئے آمریت پسندانہ اقدامات کے سامنے بھی بند باندھ سکتے ہیں۔


لیکن اگر ایردوآن اور ان کی جماعت ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو پھر ان کا اقتدار تیسری دہائی میں بھی داخل ہو سکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج نہ صرف یہ طے کرے گی کہ 85 ملین آبادی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن اس ملک کی سربراہی کون کرے گا بلکہ یہ فیصلہ بھی ہو گا کہ ملک میں مستقبل کا طرز حکمرانی کیا ہو گا، جس کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور زندگی گزارنے کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کی خارجہ پالیسی کی بھی سمت متعین ہو گی۔

نیویارک میں سینٹ لارینس یونیورسٹی میں مشرقی وسطیٰ کی تاریخ کے پروفیسر ہاورڈ ایزن اسٹیٹ کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے کے الیکشن میں اردوآن کو فائدہ ہو گا کیونکہ ان کی جماعت پارلیمانی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ووٹر ایک "منقسم حکومت" نہیں چاہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔