ہمارا نوجوان بے ہودگی کی اس نہج پر اچانک نہیں پہنچا

کالج میں تھی، جب اپنے ایک مہربان استاد سے طنز اور مزاح کا فرق دریافت کیا۔ تب شاید تعلیم و تربیت کا کاروبار ابھی بے رحم ترقی کی اس نہج پر نہیں پہنچا تھا کہ مطابقت و مسابقت کی دوڑ سوال کو ہی ختم کر دے۔

ہمارا نوجوان بے ہودگی کی اس نہج پر اچانک نہیں پہنچا
ہمارا نوجوان بے ہودگی کی اس نہج پر اچانک نہیں پہنچا
user

Dw

تب اساتذہ کے پاس سوال سننے اور اس کا جواب دینے کا نا صرف حوصلہ تھا بلکہ طلباء کے نوخیز اذہان سے ابہام دور کرنے کی فرصت بھی تھی۔اپنے استاد کے الفاظ مجھے اب بھی یاد ہیں، ’’جب ایک شخص معاشرتی رویوں پر ہنستا ہے تو اسے مزاح کہتے ہیں لیکن جب سارا معاشرہ کسی ایک شخص پر ہنسنے لگے تو وہ طنز کہلائے گا۔‘‘

طنز اور مزاح کا تعلق معاشرے کی مشترکہ حسِ مزاح سے ہے اور کسی بھی صحت مند معاشرے کے اوصاف میں حس مزاح کا کردار وہی ہے، جو ایک صحت مند جسم میں روح کا۔ جس طرح روح سے عاری انسان کو مردہ قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح جو معاشرہ حس مزاح سے محروم ہو جائے، اس میں زندگی کی رمق تلاش کرنا بھی کار لاحاصل ہے۔


لیکن روز مرہ زندگی کے باقی تمام معاملات کی طرح ہماری حس مزاح کا معاملہ بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اب حس مزاح کو محض ہنسنے، ہنسانے کی صلاحیت سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے اور اس سب میں طنز اور مزاح کے درمیان موجود وہ مہین لکیر کہیں کھو سی گئی ہے۔ مزاح میں شائستگی کا وہ مقام، جس کو پار کرنا کبھی بد اخلاقی تصور ہوا کرتا تھا، اب وہ کہیں بہت دور رہ گیا ہے۔

بے ہودگی کی اس نہج پر ہم اچانک نہیں پہنچے۔ نوے کی دہائی میں جب وی سی آر اور سی ڈیز کا دور اپنے عروج پر تھا، تب سٹیج ڈراموں کا زمانہ تھا۔ جگت باز فن کار ایک دوسرے کی شکلوں، آواز ، لب و لہجے اور لسانی و ثقافتی پس منظر پر ایک پھبتی کستے اور سامعین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔اگلے ہی روز اس مزاح کا مظاہرہ ایک دوسرے کے ساتھ گفت گو میں ہونے لگتا۔ گھٹیا جملے روز مرہ کی گفت گو کا حصہ بنتے چلے جاتے اور اسی دوران میں دوسرے ڈرامے کی کیسٹ مارکیٹ میں پہنچ جاتی۔


ایسے میں کبھی کبھار کئی مقتدر شخصیات کے متعلق بھی پتہ چلتا رہتا کہ جب وہ امور سلطنت میں الجھے عوام کی خدمت کرتے، کرتے تھک جائیں تو کسی کامیڈین کو فون کر کے حکم صادر کرتے ہیں کہ اب انہیں ہنسایا جائے کہ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے بہتر طریقے سے خدمت کا بھاری بوجھ اٹھا سکیں۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، عوام کو تو بس اسی مہر تصدیق کی ضرورت تھی۔

سیاسی اختلافات کو ذاتی سطح پر کھینچا گیا، مختلف الرائے پر جلسوں میں گھٹیا پھبتیاں کسنے کا رواج شروع ہوا، بڑ بولے مقرر عوامی اجتماعات اور سیاسی جلسوں کی جان بننے لگے، جو مخالفین کی شکلوں، زبان، لب و لہجے اور لباس پر عین سٹیج ڈراموں کی طرز پر جگتیں لگاتے۔ سر عام لغو و فحش گوئی عیب نہ رہی اور یوں رفتہ رفتہ بقول شخصے حس مزاح کا یہ حال ہوا کہ جس بات پر ہمیں ہنسنا چاہیے اس پر رونے لگتے ہیں اور سنجیدہ باتوں پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔


سوشل میڈیا نے اس بچی کچھی اخلاقیات کو بھی اب ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔ نظریات کی جنگ لڑنے کو اب کسی باقاعدہ مطالعے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ نظریات کی لڑائی کا ہتھیار اب صرف پانچ انچ کی سکرین ہے، جہاں پسند کے دلائل، اپنی حس مزاح سے مطابقت رکھتے جملے اور چبھتے ہوئے فقرے لائیک، شیئر، کاپی پیسٹ اور ری ٹویٹ کرنے کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہے۔

میمز بنا کر نظریاتی مخالفین کی دھجیاں اڑائیں یا ٹرولنگ سے ہر سیدھی بات کا منہ توڑ جواب دیں کوئی روکنے والا نہیں۔ اگر اس سب پر بھی دماغ خرچ ہو رہا ہے تو سیدھے سبھاؤ گالیاں بھی دی جا سکتی ہیں بلکہ دی جاتی ہیں۔ یہیں سے ہماری نوجوان نسل کی سیاسی تربیت کا آغاز و اختتام ہوتا ہے اور یہی اب حس مزاح ہے، جس میں ’’مزاح‘‘ اب اپنے جملہ فرائض ’’طنز‘‘ کے حوالے کر کے کب کا سبک دوش ہو چکا ہے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */