بھارت میں دو برس کے دوران صحافیوں پر 256 حملے، رپورٹ

امریکا کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں گزشتہ دو برس کے دوران صحافیوں پر تشدد کے 256 واقعات رونما ہوئے۔ صحافی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا مسلسل نشانہ بنتے رہے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

عوامی مسائل اور معاملات پر تحقیقات کرنے والی نیویارک کی غیر سرکاری تنظیم پولیس پروجیکٹ (The Polis Project) نے بھارت میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں پر تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں صحافیوں کو جھوٹے کیسز میں گرفتاری سے لے کر قتل تک، کئی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں صحافت ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے۔

پولیس پروجیکٹ نے اپنی ان تحقیقات میں مئی 2019 ء سے لے کر رواں برس اگست تک کے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ اس میں مختلف واقعات کی کوریج کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق جموں و کشمیر میں 51، متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران 26، دہلی میں فروری 2020 ء میں ہونے والے فسادات کے دوران 19 اور کووڈ کے کیسز کی کوریج کے دوران صحافیوں پر تشدد کے 46 واقعات رونما ہوئے ۔ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسان تحریک کے دوران صحافیوں کے خلاف تشدد کے اب تک 10واقعات پیش آچکے ہیں۔ جبکہ 104واقعات ملک بھر میں دیگر موضوعات کی کوریج کرتے ہوئے پیش آئے۔


صدیق کپّن ایک برس سے زیادہ عرصے سے قید میں

پولیس پروجیکٹ سے وابستہ سچترا وجیئن کا کہنا ہے کہ بھارت میں حکومت صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکنے کے لیے مختلف طریقے اپنا رہی ہے۔

اس وقت کئی صحافی جیلوں میں بند ہیں۔ کیرل کے صحافی صدیق کپّن کو گزشتہ برس اکتوبر میں اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ اترپردیش کے ہاتھرس میں اجتماعی زیادتی اور قتل کا شکار ہونے والی ایک خاتون کی رپورٹنگ کے لیے جارہے تھے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے صدیق کپّن پر مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، سازش اور ملک سے غداری جیسے سنگین دفعات عائد کی ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی 90 سالہ والدہ کا انتقال ہوگیا لیکن یوگی حکومت نے انہیں اپنی علیل والدہ سے ملاقات کی اجازت تک نہیں دی۔


سچترا وجیئن کہتی ہیں،”موجودہ حکومت بھارت میں صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر، گرفتار یا فرضی کیس درج کرکے یا کئی طرح کی پابندیاں عائد کرکے خاموش کروا رہی ہے۔ جو صحافی حکومت کے خلاف بولتے ہیں ان پر ملک سے غداری کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور انہیں مسلسل گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے۔"

کسان تحریک کی رپورٹنگ کرنے والے ایک فری لانس جرنلسٹ مندیپ پونیا کو رواں برس 30 جنوری کو دہلی کے سندھو بارڈر سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ان پر سرکاری کام میں رخنہ ڈالنے، سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرنے،سرکاری اہلکار کو چوٹ پہنچانے جیسے تعزیرات کے تحت کیس درج کیے گئے تھے۔ صحافتی برادری اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت مخالفت کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی مل سکی۔


آزادئیِ صحافت کا خراب ریکارڈ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور کاموں کی نکتہ چینی کرنے والے صحافیوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون (یو اے پی اے)، قومی سلامتی قانون(این ایس اے) اور پبلک سکیورٹی ایکٹ(پی ایس اے) جیسے سخت قوانین کے تحت کیسز دائر کردیے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے بعض اوقات انہیں کسی قانونی چارہ جوئی کے بغیر مہینوں ضمانت بھی نہیں مل پاتی ہے۔

پولیس پروجیکٹ کی سچترا وجیئن کا کہنا ہے،”جو صحافی حکومت سے سوال کرتے ہیں ان کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے کی مہم کیوں چلائی جاتی ہے۔ کئی مرتبہ تو انہیں قتل اور ریپ جیسی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ بھارت میں میڈیا پر بڑھتی ہوئی پابندیوں نے پریس کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے۔"


صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرزنے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت کو صحافت کے لیے دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک ملکوں میں شامل کیا تھا۔ اس تنظیم کی طرف سے جاری سن 2021 کی ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت میں 180ملکوں کی فہرست میں 142واں مقام دیا گیا ہے۔ جس سے میڈیا کی آزادی کی خراب صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے۔

پولیس پروجیکٹ کی یہ رپورٹ ایسے وقت منظر عام پر آئی ہے جب چند دن قبل ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے دنیا بھر میں صحافیوں کی آزادی کے حق میں ایک اہم بیان دیا۔ انہوں نے کہا،” کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک آزاد نہیں رہ سکتا جب تک کہ اُس میں صحافیوں کو ارباب اختیار کے غلط اقدامات کی تفتیش کرنے اور سچ بولنے کی اجازت نہ ہو۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔