ایک سال میں اٹھارہ ہزار جرمن بچوں، نوجوانوں کا جنسی استحصال

تازہ ترین سالانہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں گزشتہ برس تقریباﹰ اٹھارہ ہزار بچوں اور نوجوانوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔ ان متاثرین میں سے دو ہزار تین سو کے قریب چھ سال سے بھی کم عمر کے بچے تھے۔

ایک سال میں اٹھارہ ہزار جرمن بچوں، نوجوانوں کا جنسی استحصال
ایک سال میں اٹھارہ ہزار جرمن بچوں، نوجوانوں کا جنسی استحصال
user

Dw

جرائم کی چھان بین کرنے والے وفاقی جرمن دفتر فیڈرل کریمینل آفس (BKA) کےسربراہ ہولگر میُونش نے پیر 30 مئی کے روز برلن میں سال 2021ء کے دوران ایسے جرائم کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس پورے ملک میں بچوں اور نوجوانوں کے جنسی استحصال اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے 17 ہزار 700 سے زائد کیس درج کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ نابالغ افراد کے جنسی استحصال کے ایسے واقعات کی یومیہ بنیادوں پر اوسط 49 بنتی ہے۔

تیرہ فیصد متاثرین کی عمریں چھ برس سے بھی کم

بی کے اے کے سربراہ ہولگر میُونش نے جب گزشتہ برس کے لیے ایسے جرائم کا ڈیٹا جاری کیا، تو ان کے ساتھ بچوں کے جنسی استحصال اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کی روک تھام کی نگران اور وفاقی جرمن حکومت کی نامزد کردہ عہدیدار کَیرسٹِن کلاؤس بھی موجود تھیں۔


فیڈرل کریمینل آفس کے صدر نے اس موقع پر بچوں کے جنسی استحصال سمیت ان پر تشدد سے متعلق جرائم کے اعداد و شمار کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا۔ ہولگر میُونش نے بتایا کہ 2021ء کے دوران 14 برس سے کم عمر کے جو تقریباﹰ 18 ہزار جرمن بچے اور نوجوان جنسی استحصال اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنے، ان میں سے 2281 یا تقریباﹰ 13 فیصد متاثرین کی عمریں چھ برس سے بھی کم تھیں۔

چائلڈ پورنوگرافی کے واقعات دوگنا ہو گئے

جرمنی میں 2021ء کے دوران بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق جرائم کے جن سالانہ اعداد و شمار کا تفصیلی تجزیہ برلن میں جاری کیا گیا، وہ اپنی ابتدائی شکل میں گزشتہ ماہ جاری کیے گئے تھے۔ تب بی کے اے کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ اسے گزشتہ برس کُل تقریباﹰ 15 ہزار 500 واقعات میں بچوں کے جنسی استحصال کی باقاعدہ اطلاعات دی گئی تھیں۔ یہ شرح 2020ء کے مقابلے میں 6.3 فیصد زیادہ تھی۔


گزشتہ برس ایسے جرائم کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ ملک میں بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد یا چائلڈ پورنوگرافک مٹیریل کی تیاری، اسے اپنے قبضے میں رکھنے، یا اس کی تشہیر اور فروخت کے معلوم واقعات کی تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئی۔ 2020ء میں ایسے واقعات کی تعداد 18 ہزار 761 رہی تھی مگر 2021ء میں یہ تعداد سو فیصد سے بھی زائد کے اضافے کے ساتھ 39 ہزار 171 ہو گئی۔

اس کے علاوہ گزشتہ برس یوتھ پورنوگرافی کے زمرے میں آنے والے مواد کی تیاری یا اسے اپنے قبضے میں رکھنے کے مجرمانہ واقعات کی تعداد بھی بڑھ کر 5103 ہو گئی۔ اس سے ایک برس قبل 2020ء میں ایسے رجسٹرڈ کیسز کی سالانہ تعداد 3107 رہی تھی۔


بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف جرمنی اور امریکہ کے مابین تعاون

بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی روک تھام کے لیے جرمنی کا فیڈرل کریمینل آفس بی کے اے گزشتہ چند برسوں سے امریکی حکام کے ساتھ مل کر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جرمن حکام کو امریکہ کے لاپتہ یا استحصال کا شکار ہونے جانے والے بچوں کے اس قومی مرکز سے بھی کافی تکنیکی مدد ملتی ہے، جو NCMEC کہلاتا ہے۔

اس امریکی ادارے کو اس کی طرف سے چھان بین کے دوران جب بھی کوئی تکنیکی شواہد ملتے ہیں کہ مثلاﹰ ایسے کسی جرم کا ارتکاب جرمنی میں کیا گیا، تو وہ اس کی اطلاع بی کے اے کو کر دیتا ہے۔


فیڈرل کریمینل آفس کے سربراہ میُنوش کے مطابق صرف 2021ء کے دوران اس طریقے سے ان کے ادارے کو جنسی تشدد یا جنسی استحصال کے مجرمانہ واقعات سے متعلق 62 ہزار سے زائد کیسز میں اہم معلومات حاصل ہوئیں۔

کَیرسٹِن کلاؤس کا موقف

بچوں کے جنسی استحصال اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی جرمن حکومت کی نامزد گردہ نگران عہدیدار کَیرسٹِن کلاؤس نے ملک میں ایسے جرائم سے متعلق تازہ ترین سالانہ ڈیٹا کو انتہائی پریشان کن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جرمن حکومت جس انداز میں ایسے جرائم کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، اس کی روشنی میں ایسے بہت زیادہ واقعات کا منظر عام پر آنا غیر متوقع نہیں۔


کَیرسٹِن کلاؤس کے الفاظ میں، ''ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا جرمنی میں ایسے جرائم کی شرح میں واقعی بہت اضافہ ہوا ہے یا اب ایسے جرائم اس وجہ سے زیادہ بڑی تعداد میں منظر عام پر آنے لگے ہیں کہ ان کی کامیاب چھان بین کا تناسب بہت زیادہ ہو گیا ہے۔‘‘

اس وفاقی جرمن خاتون اہلکار نے، جو کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے قطعی غیر جانبدار ہیں، زور دے کر کہا کہ اکثر تاریکی میں چھپے رہنے والے ایسے جرائم کی زیادہ سے زیادہ تعداد میں کامیاب تفتیش کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ جرم ثابت ہونے پر کوئی بھی مجرم سزا سے بچ نہ سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔