سوڈان: اراضی تنازعے پر نسلی تصادم، 170 افراد ہلاک

جنوبی سوڈان کے بلیو نیل ریاست میں پچھلے دو دنوں سے جاری نسلی تصادم میں کم از کم 170 افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

دو سرکاری عہدیداروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ تشدد کا سلسلہ بدھ کے روز شروع ہوا اور جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومتی فورسز کو علاقے میں تعینات کر دیا گیا ہے جو صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

قبل ازیں وعدالماہی ہسپتال کے سربراہ عباس موسیٰ نے بتایا تھا کہ بدھ اور جمعرات کے روز کم از کم 150 افراد مارے گئے جن میں بوڑھے، بچے اور عورتیں شامل تھیں، جب کہ تقریباً 86 افراد زخمی ہوئے ہیں۔


تشدد کیسے شروع ہوا؟

بلیو نیل ریاست میں تشدد کے ان واقعات کا سلسلہ گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا جب ہوسا قبیلے اور حریف گروپوں کے درمیان زمین کے تنازعے پر تکرار ہوگئی، جس نے جلد ہی پرتشدد صورت اختیار کرلی اور باہم مخالف گروپوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ اور گھروں کو آگ لگانا شروع کردیا۔

سوڈان میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کار کے دفتر(او سی ایچ اے) کے سربراہ ایڈی روے نے کہا کہ وہ تشدد کے جاری واقعات پر"انتہائی فکرمند'' ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 13 اکتوبر سے شروع ہونے والے تشدد کے ان تازہ واقعات میں اب تک غیر مصدقہ طور پر 170 افراد قتل کیے جاچکے ہیں جب کہ 327 افراد زخمی ہوئے ہیں۔


انہوں نے بتایا کہ "تشدد کی وجہ سے اب تک سینکڑوں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں اور مغربی کورڈافان اور بلیو نیل ریاست کے دیگر علاقوں میں پرتشدد واقعات کی وجہ سے مزید افراد اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ جا سکتے ہیں اور انسانی مصائب میں اضافہ ہوسکتا ہے۔" جمعرات کے روز ڈامازن میں سینکڑوں افراد نے جلوس نکالا اور ریاستی گورنر کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین "تشدد بند کرو" کے نعرے لگا رہے تھے۔

فوجی حکمرانوں پر الزام

ایک جمہوریت نواز گروپ ریزیسٹنس کمیٹی نے تشدد کے ان واقعات کے لیے ملک کے فوجی حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اس نے کہا کہ بلیو نیل میں سکیورٹی کا انتہائی فقدان ہے اور فوجی حکمراں نسلی گروپوں کو تحفظ فراہم نہیں کر رہے ہیں۔


دوسری طرف سوڈانی فوج نے الزام لگایا کہ بلیو نیل اور جنوبی کورڈافان علاقے میں سرگرم ایک باغی گروپ سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ (نارتھ) ان حملوں میں ملوث ہے۔ باغی گروپ نے اس الزام پرفی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

سوڈان مسلسل مصائب سے دوچار

گزشہ برس اکتوبر میں فوجی بغاوت کے بعد سے ہی سوڈان شورش کا شکار ہے، جب ملک میں تین دہائیوں کے بعد مختصر مدت کے لیے قائم ہونے والی عمر البشیرکی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا۔ عمرالبشیر کو اقتدار سے معزول کرنے کے بعد ملک میں ایک سویلین فوجی مشترکہ حکومت قائم کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔


متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات گزشتہ اکتوبر میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں خطے میں پیدا ہوجانے والے طاقت کے خلاء کا نتیجہ ہیں۔ ملک کی بدحال معیشت اور یوکرین کی جنگ کے سبب ایندھن کی قلت سے پیدا حالات نے تشدد کو مزید تقویت فراہم کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔