مظاہروں کے درمیان ایران کا عراقی کردستان پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

کرد حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے ڈرون حملوں میں کرد ایرانی مخالف گروپ کے 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب کردخاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔

مظاہروں کے درمیان ایران کا عراقی کردستان پر حملہ، متعدد افراد ہلاک
مظاہروں کے درمیان ایران کا عراقی کردستان پر حملہ، متعدد افراد ہلاک
user

Dw

عراقی کردستان کی انسداد دہشت گردی سروس نے ایک بیان میں کہا کہ ایران نے عراقی کردستان کے علاقے میں ایک مخالف گروپ کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا، جس میں 13 افراد ہلاک اور 58 دیگر زخمی ہوگئے۔

ایرانی گروپ کے خلاف یہ حملے تقریباً دو ہفتے قبل ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں جاری شورش کے درمیان ہوئے ہیں۔ 22 سالہ امینی کو ایران کی اخلاقی پولیس نے ملک کے سخت ترین حجاب قانون کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کرلیا تھا اور حراست کے دوران ہی ان کی موت ہوگئی۔


حملوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے کہا کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے ''درست نشانہ لگانے والے میزائل'' اور ''خودکش ڈرونز'' کا استعمال کیا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ عراق کے شمال سے باہر سرگرم کرد علیحدگی پسند گروپ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ بائیں بازو کی مسلح حزب اختلاف، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران (کے ڈی پی آئی) نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

کے ڈی پی آئی نے کہا کہ ''یہ بزدلانہ حملے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران کی دہشت گرد حکومت اندرون ملک جاری مظاہروں کو کچلنے اور کرد اور ایرانی عوام کی شہری مزاحمت کو خاموش کرنے سے قاصر ہے۔''


کے ڈی پی آئی کے ایک رکن کے مطابق، حملے میں اربیل سے تقریباً 65 کلومیٹر مشرق میں واقع کویا میں ہوئے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے حملوں کے بعد کہا کہ وہ خطے میں 'دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنانا جاری رکھیں گے۔ عراق کی وفاقی حکومت اور علاقائی کرد حکومت نے بھی حملوں کی مذمت کی ہے۔

عراق کی وفاقی حکومت نے ہلاکت خیز حملوں پر احتجاج کے لیے ایرانی سفیر کو طلب کیا، جب کہ عراق میں اقوام متحدہ کے مشن نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "راکٹ ڈپلومیسی تباہ کن نتائج کے ساتھ ایک لاپرواہ عمل ہے۔" اقوام متحدہ کے مشن نے ٹوئٹ کیا کہ "ان حملوں کو فوری طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے۔"


بین الاقوامی ردعمل

برلن، واشنگٹن اور لندن نے عراقی کردستان کے علاقے پر ایران کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ"ہم پڑوسی ملک میں ایرانی مظاہروں کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔" امریکی محکمہ خارجہ نے اس حملے کو "عراقی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی بلا جواز خلاف ورزی" قرار دیا ہے۔

برطانیہ نے بھی کہا کہ حملوں سے ''خطے کو غیر مستحکم کرنے کی ایران کی سرگرمیوں کے مستقل پیٹرن" کا پتہ چلتا ہے۔


ایران میں کیا ہو رہا ہے؟

حزب اختلاف کے میڈیا نے بتایا کہ ایران میں خواتین کی قیادت میں مظاہرے منگل کو مسلسل 12 ویں رات بھی جاری رہے۔ امینی کی موت کے خلاف جاری پرتشدد مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس نے 1200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ پولیس نے بدھ کے روز متنبہ کیا کہ وہ ''اپنی پوری طاقت کے ساتھ'' مظاہرین کا مقابلہ کریں گے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ایرانی حکام نے مظاہروں اور جلسوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے کریک ڈاؤن کی فوٹیج کو گردش کرنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بدھ کے روزقوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''مہسا امینی کی موت نے ہم سب کو دکھ پہنچایا ہے۔'' سخت گیر رہنما نے وعدہ کیا کہ نوجوان خاتون کی موت کی فرانزک رپورٹ جلد ہی جاری کی جائے گی۔


صدر رئیسی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فسادات اور تشدد ناقابل قبول ہیں اور یہ کہ پولیس ملک کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ''کسی کو افراتفری پھیلا کرعوام کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''

مغربی ملکوں کی جانب سے مظاہروں کی حمایت

کئی مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے بھی مظاہروں کی حمایت کی ہے اور ایران سے امینی کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے، نوبل امن انعام یافتہ اور ایرانی سیاسی کارکن شیریں عبادی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانیوں کی حمایت کے لیے مزید کام کریں۔


شیریں عبادی نے کہا ''وہ صرف باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں الفاظ نہیں چاہئے، ہم عمل چاہتے ہیں۔ جب تک جبر ہے، انہیں ایران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانا چاہیے۔ اور براہ کرام لوگوں کے قتل میں ملوث قصورواروں کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں شامل کریں۔"

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ بدھ کے روز اسپین نے ایرانی سفیر کو ''مظاہرین کے ساتھ زیادتی اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی پر اپنے اعتراضات کا اظہار کرنے کے لیے'' طلب کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔