گیبون میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، صدر علی بونگو نظر بند

گیبون میں فوجی افسران کے ایک گروپ نے کہا کہ انہوں نے تمام ریاستی اداروں کو تحلیل اور صدر علی بونگو کو گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔ معزول رہنما نے عوام سے فوج کے اقدام کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔

گیبون میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، صدر علی بونگو نظر بند
گیبون میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، صدر علی بونگو نظر بند
user

Dw

گیبون کے اعلیٰ فوجی افسران کے ایک گروپ نے بدھ کے روز ٹیلی وژن پر آکر ملک کے حالیہ صدارتی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا کیونکہ ان کے مطابق یہ انتخابات غیر معتبر تھے۔

بدھ کی صبح کو اس وسطی افریقی ملک کی الیکشن کمیٹی نے جیسے ہی 64 سالہ صدر علی بونگو کے 64.27 ووٹوں کے ساتھ دوبارہ انتخاب جیتنے کا اعلان کیا، دارالحکومت لیبرویل کے مرکزی چوراہوں پر فائرنگ شرو ع ہو گئی۔


صدر گھر میں نظر بند

بغاوت کرنے والے فوجی رہنماوں نے بونگو پر "غداری" کا الزام لگا کر گھر میں نظر بند کر دیا ہے جب کہ دیگر حکومتی شخصیات کو مختلف الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔ فوجی افسران نے ریاستی ٹیلی وژن پر ایک بیان میں کہا،"صدر علی بونگو گھر میں نظر بند ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور ڈاکٹر ان کے ساتھ ہیں۔" بونگو کے بیٹے نورالدین بونگو ویلنٹین، جو صدر کے قریبی مشیر بھی تھے،کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں علی بونگو یہ کہتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں کہ،"میں تمام دوستوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر میں ہمارے لوگ موجود ہیں جو مجھے اور میرے اہل خانہ کو گرفتار کرنے کے خلاف آواز بلند کریں گے۔" صدر علی بونگو نے مزید کہا،"میں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں آپ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کے خلاف آواز بلند کریں۔"


تمام ادارے تحلیل

فوجی افسران نے ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں کہا،"گیبون کے عوام کے نام پر... ہم نے موجودہ حکومت کو ختم کرکے امن کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔" ٹیلی وژن پر آنے والے فوجیوں کے اس گروپ میں ایک درجن کرنل، الیٹ ری پبلیکن گارڈ کے ارکان، باقاعدہ فوجی اور پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ارکان شامل تھے۔ ان افسران نے گیبون کی تمام سکیورٹی اور دفاعی افواج کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے "جمہوریہ کے تمام اداروں کو تحلیل" کرنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے مداخلت کا جواز پیش کرتے ہوئے "غیر ذمہ دارانہ، غیر متوقع طرز حکمرانی" کا حوالہ دیا جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر سماجی ماحول بگڑ رہا تھا۔اور بغاوت کا مقصد موجودہ حکومت کو ختم کرکے امن بحال کرنا ہے۔ گروپ نے اگلی اطلاع ملنے تک تمام سرحدوں کو بند رکھنے کا بھی اعلان کیا۔ بعد ازاں باغی رہنماوں نے جنرل برائس کلوٹیئرے اولیگوئی نگوما کو "عبوری صدر" نامزد کردیا۔


عالمی ردعمل

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان کے مطابق انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ وہ بغاوت کی کوشش کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے "فوجی بغاوتوں کے خلاف اپنی سخت مخالفت" کا اعادہ کیا۔ افریقی یونین نے بھی اس بغاوت کی مذمت کی اور کہا کہ اقتدار پر زبردستی قبضہ اس کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔

جرمن حکومت نے بھی بغاوت پر نکتہ چینی کی حالانکہ اس نے یہ بھی کہا کہ انتخابات کے متعلق کچھ جائز تحفظات تھے۔ جرمنی کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا،''سیاسی عمل میں طاقت کے ذریعے مداخلت کرنا فوج کا کام نہیں ہے۔ گیبون کے لوگوں کو خودمختاراور آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔"


برطانیہ نے وہاں کے حالیہ انتخابات سے متعلق خدشات کو تسلیم کیا لیکن ساتھ ہی "غیر آئینی" فوجی بغاوت کی مذمت کی۔ مغربی افریقی ملک پر ماضی میں قابض فرانس نے کہا کہ وہ تمام حالات و واقعات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ ایک حکومتی ترجمان نے بعد میں کہا کہ فرانس بغاوت کی مذمت کرتا ہے۔

روس نے کہا کہ وہ گیبون کی صورت حال پر "بہت فکر مند"ہے۔ بیجنگ نے تمام فریقین سے صدر علی بونگوکی حفاظت کی ضمانت دینے کا مطالبہ کیا۔چین نے کہا کہ وہ گیبون میں پیش آنے والے حالات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔


انتخابات کے بعد سے ہی کشیدگی عروج پر

ہفتے کے روز انتخابات کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ قدرتی وسائل سے مالامال لیکن غربت کا شکار گیبون میں گزشتہ 55 سال سے بونگو خاندان کی حکمرانی ہے اور اپوزیشن اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کی غیر موجودگی، غیر ملکی نشریات کی معطلی اور ملک بھر میں انٹرنیٹ پر پابندی نیز حکام کی جانب سے کرفیو کے نفاذ کی وجہ سے انتخابات میں شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے۔

یاد رہے کہ سن 2019 میں فوجیوں نے سرکاری ریڈیو پر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے صدر علی بونگو کو معزول کرنے کے لیے "ایک قومی بحالی کونسل تشکیل دی ہے۔" لیکن بغاوت کی یہ کوشش ایک ہفتے کے اندر دم توڑ گئی، جب فوجی دستوں نے ریڈیو اسٹیشن پر دھاوا بول دیا۔ اس کارروائی میں دو باغی ہلاک ہوگئے جب کہ آٹھ دیگر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔


گیبون میں یہ تازہ ترین پیش رفت نائیجر میں باغی فوجیوں کی جانب سے جمہوری طورپر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے تقریباً ایک ماہ بعد ہوئی ہے۔ دریں اثنا تجزیہ کار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بونگو خاندان برسوں سے جمہوریت کو 'تباہ' کر رہا ہے۔

یونیورسٹی آف کیپ ٹاون میں سیاسی اورمعاشی امور کے ماہر لیونارڈ اینزیگے ایمبولے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بونگو خاندان نے اپنے پانچ دبائیوں سے زیادہ کے اقتدار میں جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ انہوں نے کہا ''گیبون کی موجودہ حکومت کو آپ منتخب آمرانہ حکومت کہ سکتے ہیں۔ ''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔