یہ کن اسلامی تعلیمات کا حوالہ ہے کہ 18 سال کی عمر میں شادی لازمی ہو

تانیہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر سندھ کی صوبائی اسمبلی سے اٹھارہ برس کی عمر میں لازمی شادی کا قانون پاس کرانے کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

میں سمجھ نہیں پا رہی کہ کوئی یہ کیے سوچ سکتا ہے کہ 18 سال کے ہر نوجوان کی شادی ہو جانی چاہئے۔ یہ الفاظ سترہ سالہ تانیہ ناز کے ہیں جو کراچی کی رہائشی ہیں اور اپنے والدین کی طرح دندان سازی کی فیلڈ میں اپنا نام بنانا چاہتی ہیں۔

تانیہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر سندھ کی صوبائی اسمبلی سے اٹھارہ برس کی عمر میں لازمی شادی کا کوئی قانون پاس کرانے کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔


تانیہ کے بقول، ''میں ڈینٹسٹ بننا چاہتی ہوں جس کے لیے مجھے مزید چند سال درکار ہیں اور اس کے لیے میں سخت محنت کر رہی ہوں۔ اگر 18 برس کی عمر میں میری شادی کر دی تو میرا اور میرے والدین کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ گھر اور پھر بچوں کی ذمہ داری اٹھاوں گی یا اپنی تعلیم پر دھیان دوں گی؟ آخر معاشرے میں بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی دانشمندانہ اقدام اٹھانے کا کیوں نہیں سوچا جا سکتا۔ ‘‘

متحدہ مجلس عمل کے رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید نے دو صفحات پر مشتمل ایک مسودہِ قانون سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروایا ہے جس کے تحت سندھ میں 18 سال کے نوجوانوں کی شادی کو لازمی قراردینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس مسودے کو سندھ لازمی شادی ایکٹ 2021ء کے نام سے پیش کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ والدین 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے اپنے بچوں کی لازمی شادی کرائیں ۔ اگر والدین اپنے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں تو انہیں ڈپٹی کمشنر کے پاس ٹھوس وجوہات کے ساتھ تحریری طور پر آگاہ کرنا ہوگا۔ والدین اگر تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ دے سکیں تو ان پر جرمانہ کیا جائے اور یہ جرمانہ ڈپٹی کمشنر آفس کے سرکاری بینک اکاونٹ میں جمع کرائے جائیں۔


سید عبدالرشید کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد معاشرے کی فلاح ہے اور ''یہ مجوزہ بل عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں ''معاشرے میں زیادتی کے بڑھتے واقعات، معاشرتی برائیوں، اخلاقی گراوٹ اور غیر اخلاقی جرائم میں کمی کو شرعی تعلیمات کی روشنی اور بلوغت یا 18 سال کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی شادی سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔‘‘

اس مسودے کو پیش کرنے کی خبروں کے بعد مختلف حلقوں کی طرف سے منقسم آراء سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو یہ احسن اقدام ہو گا۔ اس خیال سے متفق کراچی کے ہی ایک رہائشی اکمل کامران کہتے ہیں، ''ملک میں جس طرح جنسی جنونیت اور بے راہ روی بڑھ رہی ہے، اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کی جلد سے جلد شادی کردی جائے تاکہ ان کی توجہ ان کے اپنے گھر اور بیوی بچوں کی ذمہ داری کی جانب رہے۔ ‘‘


دوسری جانب اس کوشش کو شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سندھ کے رکن صوبائی اسمبلی شہزاد قریشی کا کہنا ہے کہ ہم آخر کس طرح والدین کو اولاد کی شادی کے لیے مجبور کر سکتے ہیں، ''میرا ان سے یہ سوال ہے کہ اگر کسی لڑکی کا 18 برس کی عمر تک مناسب رشتہ نہیں آتا تو کیا والدین جرمانے سے بچنے کے لیے کسی بھی غیر مناسب شخص سے اس کی شادی کر دیں؟‘‘

شہزاد قریشی کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے والدین کو آخر کیوں مجبور کیا جائے: ''18 برس کی عمر میں شادی کے بجائے اس بات کی ضرورت ہے کہ پہلے اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنا کر انہیں خودمختار کیا جائے۔ اسلام کسی شخص کو کسی دوسرے شخص پر اپنے فیصلے زبردستی مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی کسی بھی عمر میں شادی کرنا چاہے یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے اور اس فیصلے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے۔‘‘


انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن امتیاز ستی کہتے ہیں کہ سندھ میں اس طرح کے قانون کو نافذ کرنا عالمی منشور کی کھلی خلاف ورزی ہو گی، ''شادی کسی بھی شخص کا ذاتی فیصلہ ہے اور اس طرح کا کوئی بھی قانون لانے کی کوشش معاشرے سے برائی تو شاید ہی ختم کر سکے لیکن یہ غربت، تشدد، مایوسی اور گھٹن کا باعث ضرور بنے گی۔‘‘

امتیازی ستی کے بقول ایسا کوئی بھی قانون صرف لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم میں ہی رکاوٹ نہیں بلکہ لڑکوں اور ان کے والدین پر بھی بوجھ بنے گا: ''آپ کس طرح 18 برس کے لڑکے پر خاندان کی ذمہ داری ڈال سکتے ہیں۔ اس عمر میں تو وہ خود والدین پر اپنی تعلیم اور رہن سہن کے لیے انحصار کرتا ہے۔ پھر دیکھا جائے تو یہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی شق نمبر سولہ سے بھی متصادم ہے جس کے مطابق والدین کو اپنے فیصلے کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔‘‘


یہ بات اہم ہے کہ سید عبدالرشید سندھ اسمبلی میں اپنی جماعت کے واحد رکن ہیں اس لیے اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ انہیں بل کی منظوری کے لیے دیگر اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہوگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں اب تک اس مسودے کے حق میں نہیں نظرآرہی جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس مسودے کو مضحیکہ خیز قرار دے رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔