’میڈ ان جرمنی‘ اب غیر ملکی ہنر مندوں کا مرہون منت؟

جرمنی کی آبادی کم ہونے کے ساتھ ساتھ سائنس اور انجینئرنگ جیسے تکنیکی شعبوں کا مطالعہ کرنے والے طلباء کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ صنعتی طاقت رہنے کے لیے ملک کو بیرون ملک سے انجینئرز کی ضرورت ہو گی۔

’میڈ ان جرمنی‘ اب غیر ملکی ہنر مندوں کا مرہون منت؟
’میڈ ان جرمنی‘ اب غیر ملکی ہنر مندوں کا مرہون منت؟
user

Dw

رابرٹ وائس جرمنی میں اپنے فارغ وقت میں گھر میں کاریں ٹھیک کرنے میں اپنے والد کی مدد کرتے ہوئے پلے بڑھے۔ بعد میں اسی وجہ سے انہوں نے اپنے لیے انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیا اور پھر درس و تدریس کا انتخاب کرنے سے قبل انہوں نے جرمنی کی ریل اور آٹو انڈسٹریز میں کام کیا۔

آج کارلسروہے یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز میں مکینیکل انجینئرنگ اور میکیٹرونکس کی فیکلٹی کے ڈین کے طور پر رابرٹ ویس اس بات کی تصدیق کرنے میں ہچکچاتے ہیں کہ طلباء تکنیکی شعبوں میں اب پہلے کی نسبت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔


وائس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پانچ سال پہلے ان کے پروگرام میں شمولیت کے لیے ہر پوزیشن کے لیے اوسطاً سات درخواست دہندگان ہوا کرتے تھے تاہم آج یہ تعداد کم ہو کر تین رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ واقعی خوفناک ہے۔ یہ یونیورسٹی کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ہم اپنے پروگراموں کو ہر ممکن حد تک مکمل بنانا چاہتے ہیں اور ان تمام انجینئرز کو تیار کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کا اثر صنعت اور جرمنی اور معیشت پر بھی پڑتا ہے اگر آپ کے پاس کافی انجینئرز کام نہیں کر رہے ہیں۔‘‘

سبز تبدیلی خطرے میں

جرمن انجینئرنگ اپنے معیار اور جدت کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لیکن اب یہ برانڈ خطرے میں ہے۔ ملک کے وفاقی ادارہ شماریات کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں، جن کے لیے( STEM) کی مختصر اصلاح استعمال کی جاتی ہے، میں یونیورسٹی کی ڈگریاں شروع کرنے والے طلباء کی تعداد صرف ایک سال میں چھ فیصد کمی آئی ہے۔


آج بہت سے ممالک ہنر مند مزدوروں کی کمی سے نبرد آزما ہیں لیکن جرمنی دو محاذوں پر مارا گیا ہے۔ ایک جانب ملک کی آبادی کم ہو رہی ہے اور دوسری جانب بہت سے انجینئرز اور تکنیکی ماہرین اب ریٹائرمنٹ کی عمروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسی وقت جرمنی کو بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل اور گرین ٹرانسفارمیشن کی ضرورت ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے، جس کے لیے آئی ٹی، انجینئرنگ اور دیگر جدید تکنیکی شعبوں میں ہنر مند کارکنوں کی فوج درکار ہوگی۔

کولون میں قائم جرمن اکنامک انسٹی ٹیوٹ کی 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل 2022 میں ملک STEM کے ماہرین کی تعداد 320,000 کے قریب تھی۔


افرادی قوت کی قلت سے پیداوارمتاثر

جرمنی کی وزارت تعلیم اور تحقیق (BMBF) نےسائنسی مضامین میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو نشانہ بنانے والے اپنے ایکشن پلان میں لکھا، '' STEM کو ابھی تک ان کی معاشی اور سماجی اہمیت کی وجہ سے پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔‘‘

جرمن اکنامک انسٹی ٹیوٹ کے کلسٹر ''ایجوکیشن، انوویشن، مائیگریشن‘‘ کے لیڈر ایکسل پلُن اَیکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت اختراعات کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہے اور اس کے لیے آپ کو ان تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہے، سوال یہ ہے کہ کیا جرمنی انہیں کافی تعداد میں حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو مسابقت متاثر ہونے جا رہی ہے یا کمپنیوں کو بھاری تعداد میں دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑے گا۔‘‘


آٹو انڈسٹری کم پرکشش

بہت سے عوامل STEM میں کارکنوں کی دلچسپی پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ آبادی میں کمی اس کہانی کا ایک حصہ ہے، جیسا کہ ملک کی مشہور آٹو موٹیو برانچ میں پیدا ہونے والی ہلچل ہے، جہاں بی ایم ڈبلیو، فاکس ویگن اور مرسیڈیز بینز جیسے مشہور آجروں نے حال ہی میں الیکٹرک انجنوں کی منتقلی کو ختم کرنےکے لیے جدوجہد کی ہے۔

رابرٹ وائس کا کہنا ہے، ''لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ وہ اس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ گاڑی شاید وہی دلچسپ چیز نہیں ہے جو ماضی میں تھی۔‘‘


پوشیدہ تارکین وطن

تو خلا کو کیسے پُر کیا جائے؟ وائس کے مطابق، ''صنعت کو دوسرے ممالک سے غیر ملکی انجینئرز تلاش کرنے ہوں گے۔اور کچھ حد تک یہ معاملہ پہلے ہی جاری ہے۔‘‘

ایکسل پلُن اَیکے کے مطابق حال ہی میں جرمنی میں تکنیکی مضامین میں بہت زیادہ امیگریشن ہوئی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں بھارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کی تعداد، مثال کے طور پر، جرمنی میں انجینئرنگ یا کمپیوٹر سائنس میں کام کرنے والوں کی تعداد تقریباً 3,800 سے بڑھ کر 25,000 ہو گئی ہے اوراس تعداد میں 558 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ پلُن اَیکے نے مزید کہا کہ یہ لوگوں کے احساس سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ جرمنی میں نقل مکانی کے بارے میں عوامی بات چیت کا رجحان تنازعات سے بے گھر ہونے والے لوگوں پر ہوتا ہے۔


مزدوری کا عالمی مقابلہ

مصر، تیونس اور مراکش کے ماہرین بھی جرمنی میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔جرمنی کے وزیر محنت ہیوبرٹس ہیل نے نومبر میں کہا تھا کہ یہ خیال کہ ''دنیا کے تمام ہنر مند کارکن‘‘ جرمنی آنا چاہتے ہیں ''بدقسمتی سے ایک وہم ہے۔‘‘

حکومت اس وقت ہنر مند مزدوروں کے لیے امیگریشن کے عمل کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نوکر شاہی کی رکاوٹیں اور ڈیجیٹلائزیشن کی کمی غیر ملکی کارکنوں کو ملک میں کام کرنے کے حق کے لیے مہینوں انتظار کر ا سکتی ہیں۔


یہ تاخیر مینوفیکچررز کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ضروری مزدوری کی کمی کا مطلب موجودہ عملے پر زیادہ دباؤ، کم پیداواری صلاحیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی ہو سکتا ہے کہ مینو فیکچررز چین جیسے تیزی سے مسابقتی کھلاڑیوں کے ہاتھوں کاروبار سے محروم ہو جائیں گے۔ چین نے اپنی مشینی صنعت کی تعمیر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ پلُن اَیکے کا کہنا ہے، ''اس لیے جرمنی کو پرکشش ہونے کی ضرورت ہےکیونکہ لوگ چلے بھی جاتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصے بھی اچھے ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔