اسکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کے گمشدہ خفیہ خطوط دریافت

برطانوی ملکہ میری کے طویل عرصے سے گمشدہ خطوط فرانس کی ایک ڈیجیٹل لائبریری میں غلط لیبل کے ساتھ پائے گئے۔ میری نے یہ خطوط 16ویں صدی میں دوران قید لکھے تھے۔

اسکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کے گمشدہ خفیہ خطوط دریافت
اسکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کے گمشدہ خفیہ خطوط دریافت
user

Dw

کوڈ بریکرز کی ایک بین الاقوامی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے 16ویں صدی میں اسکاٹ لینڈ پر حکمرانی کرنے والی ملکہ میری اسٹوئرٹ کے ایک طویل عرصے سے گمشدہ خفیہ خطوط نہ صرف دریافت کر لیے ہیں بلکہ انہیں ڈی کوڈ کر کہ ان کی عبارت کا مفہوم بھی سمجھ لیا ہے۔

اسکاٹ لیند کی ملکہ میری برطانوی تاریخ کی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو اکثر بحث کا موضوع رہی ہیں، اور ان کے دوراں قید لکھے گئے خفیہ خطوط کے بارے میں لمبے عرصے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ بالآخر یہ فرانس کی ایک ڈیجیٹل لائبریری میں غلط لیبل کے ساتھ پائے گئے۔ مورخین اس پیش رفت کو ملکہ میری کے حوالے سے ایک صدی کے عر‌صے میں ہونے والی سب سے اہم دریافت قرار دے رہے ہیں۔


میری کے کیتھولک ہونے کی وجہ سے انہیں ان کی پروٹیسٹنٹ کزن ملکہ الزبتھ اول کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا تھا اور اس بنا پر انہیں کئی سال جیل میں قید رکھا گیا۔ اسی قید کے دوران 1578ء سے 1584ء تک انہوں حال میں دریافت کیے گئے خفیہ خطوط لکھے تھے۔

سن 1578 میں میری کو ملکہ الزبتھ کے قتل کی سازش کرنے کا مجرم قرار دے کر ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا، جس کے ساتھ ان کی ڈرامائی زندگی کا اختتام ہوا۔ لیکن وہ ان تین کوڈ بریکرز کے ذہنوں سے فراموش نہیں ہوئیں جنہوں نے ان کے 50 سے زائد خطوط ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ان خطوط میں میری نے تقریباﹰ 50,000 الفاظ کی عبارت لکھی ہے۔


میری کے خطوط کی دریافت

میری کے خطوط دریافت کرنے والے تین کوڈ بریکرز ایک بین الاقوامی کراس ڈسیپلینری ٹیم ڈیکرپٹ کے ممبر ہیں جو دنیا بھر کے محافظ خانوں میں موجود دستاویزات کو ڈی کوڈ کرتی ہے۔ اسی کام کو سر انجام دیتے ہوئے یہ تینوں فرانس کی نیشنل لائبریری ببلیوتھیکس نیشنل ڈے فرانس تک پہنچے جہاں انہیں کچھ دستاویزات ملے۔ حالانکہ ان دستاویزات کے لیبل کے مطابق یہ خطوط 16ویں صدی میں اٹلی میں لکھے گئے تھے لیکن یہ تینوں کوڈ بریکرز تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کے یہ دراصل ملکہ میری نے دوران قید لکھے تھے۔

ان تین کوڈ بریکرز میں سے ایک، فرانسیسی کمپیوٹر سائنٹسٹ اور کرپٹوگرافر جارج لیسری کہتے ہیں، "ان خطوط کی عبارت کو ڈی کوڈ کرنا ایسا ہی تھا جیسے پیاز کی تہیں اتارنا۔"


جارج لیسری اور ان کے ساتھیوں، موسیقی کے جرمن پروفیسر نوبرٹ بیئرمین اور جاپانی ماہر طبیعیات ستوشی توموکیو کو پہلے یہ ادراک ہوا کہ یہ خطوط اتالوی نہیں بلکہ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ لیسری مزید بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ان خطوط میں مونث کا ثیغہ استعمال کیا گیا ہے اور "میری آزادی" اور "میرے بیٹے" جیسے فقروں کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی مصنف کوئی قیدی ماں ہے۔

لیکن ان کی کھوج میں سب سے اہم پیش رفت "والسنگھم" کے لفظ کی دریافت تھی۔ فرانسس والسنگھم ملکہ الزبتھ اول کے پرنسپل سیکریٹری اور "اسپائی ماسٹر" کا نام تھا۔ لیسری نے اس حوالے سے بتایا کے کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ وہ والسنگھم ہی تھے جنہوں نے میری کو ملکہ الزبتھ کو قتل کرنے کی ناکام سازش میں "پھنسایا" تھا۔


انہوں نے مزید کہا کہ میری بہت ہوشیار تھیں اور اسی لیے ان خطوط میں کہیں کسی قتل کی سازش کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بجائے ان خطوط میں انہوں نے اپنے لیے التجا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بات چیت، بیماری اور ان اشخاص جن کو وہ اپنا مخالف سمجھتی تھیں کی شکایت اور اپنے بیٹے کے اغوا پر پریشانی کا اظہار کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔