پاکستان: بندوق کلچر والے قبائلی علاقے میں علم کی روشنی پھیلاتی لائبریری

بدنام ہتھیاروں کی مارکیٹ درہ آدم خیل میں ایک کمرے سے شروع ہونے والی لائبریری بہت جلد ایک منزلہ عمارت میں منتقل ہوگئی۔ آئندہ نسل کو علم کا سرمایہ پہنچانے کا سبب بننے والی لائبریری کی دلچسپ کہانی پڑھیے۔

پاکستان: بندوق کلچر والے قبائلی علاقے میں علم کی روشنی پھیلاتی لائبریری
پاکستان: بندوق کلچر والے قبائلی علاقے میں علم کی روشنی پھیلاتی لائبریری
user

Dw

پاکستان کے دیہی علاقوں میں لائبریریاں نایاب ہیں، اور جو چند شہری مراکز میں موجود ہیں وہ اکثر ناقص ذخیرے کا مرکز سمجھی جاتی ہیں اور کبھی کبھار استعمال ہوتی ہیں۔

ہتھیاروں کے ڈھیر پر بنی لائبریری

درہ آدم خیل کا قصبہ انتہائی قدامت پسند قبائلی پٹی کا حصہ ہے جہاں آس پاس کے پہاڑوں میں دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی اور منشیات کے کاروبار نے اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ''وائلڈ ویسٹ‘‘ راستے کے طور پر شہرت بخشی ہے۔ درہ آدم خیل میں علم دوست انسانوں کے لیے اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لانے کا ذریعہ بننے والی یہ لائبریری سن 2018 میں ایک تنہا پڑھنے کے کمرے کے طور پر قائم ہوئی تھی۔


محمد راج نامی ایک شخص نے اس علاقے کے مرکزی بازار میں بندوق کی سینکڑوں دکانوں میں سے ایک کے اوپر ایک کمرے میں یہلائبریری بنائی تھی۔ محمد کی عمر اب 36 سال ہے۔ وہ ایک مقامی ماہر تعلیم، ممتاز شاعر اور استاد ہے۔ وہ بندوق سازوں کی ایک طویل نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ محمد راج کہتا ہے، ''آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے لائبریری کو ہتھیاروں کے ڈھیر پر تعمیر کیا۔ ‘‘

لائبریری منصوبے کی کامیابی

اس منصوبے نے نہایت تیزی سے ایک کمرے کی حد کو وسعت دیتے ہوئے ایک منزلہ عمارت میں منتقل کر دیا۔ اس قلیل مدت کے دوران عطیہ کی گئی زمین پر مقامی کمیونٹی کی مالی اعانت سے ایک منزلہ عمارت تعمیر ہو چکی تھی۔


پلاٹ تحفے میں دینے والے خاندان کے سرپرست، 65 سالہ عرفان اللہ خان کے بقول، ''ایک وقت تھا جب ہمارے نوجوان خود کو ایک قسم کے زیورات کی طرح ہتھیاروں سے مزین کرتے تھے لیکن علم کے زیور سے آراستہ مرد کہیں زیادہ خوبصورت نظر آتے ہیں، خوبصورتی بازوؤں میں نہیں بلکہ تعلیم میں ہوتی ہے۔‘‘ عرفان اللہ خان اپنے بیٹے آفریدی کے ساتھ اپنا اس انوکھے پراجیکٹ کو مطلوبہ وقت دیتے ہیں۔

رویوں میں تبدیلی

قبائلی علاقے جو 2018 ء تک نیم خودمختار تھے اور پڑوسی صوبے خیبر پختونخوا میں ضم ہو گئے تھے، میں پاکستان کی غربت، پدرانہ اقدار، بین النسل تنازعات اور اسکولوں کی کمی کے نتیجے میں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے۔ لیکن اب رویوں میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔


ایک نرم گو 33 سالہ رضاکار لائبریرین شفیع اللہ آفریدی کا خیال ہے کہ، ''خاص طور پر نوجوان نسل کے رویے کی تبدیلی نمایاں ہے جو اب ہتھیاروں کی بجائے تعلیم میں دلچسپی لے رہی ہے ۔‘‘ آفریدی کا مزید کہنا تھا، ''جب لوگ اپنے پڑوس کے نوجوانوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنتا دیکھتے ہیں تو دوسرے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ آفریدی نے تین زبانوں انگریزی، اردو اور پشتو میں 4,000 ٹائٹلز پر مشتمل دستاویزات تیار کیے ہیں۔

ہتھیاروں کی گھن گرج اور کتاب بینی

پس منظر میں بندوق سازی اور ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ کا شور اور آس پاس کی زمین کی گولیوں اور بارود سے گرد آلود ماحول میں بھی مطالعے کا شوق رکھنے والے قارئین سبز چائے کے گھونٹ بھرتے جاتے ہیں اور اپنی دلچسپی کی کتاب یا مضمون وغیرہ پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں قارئین علمی دنیا کی گہرائی میں غوطے لگاتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، آفریدی اپنی شفٹ کے دوران ''ہتھیاروں کی اجازت نہیں‘‘ کی پالیسی کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔


لائبریری کا منظر

ایک نوجوان اسلحے کا ڈیلر قدیمی طور پر پینٹ شدہ سالمن رنگ کیلائبریری کی عمارت کی طرف جا رہا ہے، اپنی 47 AK طرز کی بندوق کو لائبریری کے دروازے پر چھوڑ کر لیکن وہ اپنا ایک ہتھیار روایتی طریقے سے اپنی کمر پر باندھے ہوئے ہے۔ کتابوں کے کیڑوں کے ایک جھنڈ میں شامل ہو کر بُک شیلفس پر کتابیں تلاش کر رہا ہے۔

ٹام کلینسی، اسٹیفن کنگ اور مائیکل کرچٹن کے پھٹے ہوئے پیپر بیک نسخے کے ساتھ ساتھ، پاکستان اور بھارت کی تاریخ اور سول سروس کے داخلے کے امتحانات کے لیے گائیڈز کے نیز اسلامی تعلیمات کا ایک وسیع انتخاب بھی یہاں مطالعے کے لیے موجود ہے۔


36 سالہ بانی راج محمد اُس وقت کو یاد کر رہا ہے جب اُس نے اپنے ذاتی ذخیرے سے اس لائبریری کو آباد کرنا شروع کیا تھا۔ ''شروع میں ہماری حوصلہ شکنی ہوئی۔ لوگوں نے پوچھا، درہ آدم خیل جیسی جگہ پر کتابوں کا کیا کام؟ یہاں کون انہیں پڑھے گا؟ اب ہمارے پاس 500 سے زیادہ ممبران ہیں۔‘‘

صارفین کے لیے سہولت

عام لوگوں کے لیے لائبریری کارڈ کی قیمت 150 روپے سالانہ ہے، جب کہ طلبہ 100 روپے ادا کر کے سال بھر کی ممبر شپ لیتے ہیں اور نوجوان اسکول کی چھٹیوں کے دوران بھی لائبریری میں دکھائی دیتے ہیں۔


لائبریری کے ہر دس میں سے ایک ممبر خاتون ہے۔ یہ تعداد قبائلی علاقوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔ جب لڑکیاں بلوغت کی سن میں پہنچ جاتی ہیں تو انہیں گھر میں محدود ہونا پڑتا ہے، وہ مخلوط ماحول میں نہیں رہ سکتیں، اس لیے ان کے گھر کے مرد ان کی طرف سے لائبریری سے کتابیں نکلوا کر انہیں لا کر دیتے ہیں۔

اس کے باوجود، 9 سالہ طالبہ مناہل جہانگیر اور پانچ سالہ حریم سعید اسکول بریک کے دوران لائبریری میں موجود مردوں کے ساتھ مل کر کتابوں سے استفادہ کرتی ہیں۔ حریم نے شرماتے ہوئے کہا،''میری ماں کا خواب ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ اگر میں یہاں پڑھتی رہی تو میں ماں کا خواب پورا کر سکوں گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */