پاکستان کے روشن خیال پشتون افغان حکومت کے حامی کیوں؟

زیادہ تر پاکستانی اور خیبرپختونخوا کے عوام افغان طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم ترقی پسند پاکستانی پشتون، افغانستان میں طالبان کے ممکنہ اقتدار سے خائف ہیں اور وہ صدر اشرف غنی کی حمایت کر رہے ہیں۔

پاکستان کے روشن خیال پشتون افغان حکومت کے حامی کیوں؟
پاکستان کے روشن خیال پشتون افغان حکومت کے حامی کیوں؟
user

Dw

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی حصے میں رہنے والے لوگ اپنے مذہبی رجحان کے باعث طالبان کے حامی ہیں لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ اگرچہ ان علاقوں میں بسنے والے کئی لوگ طالبان کو پسند کرتے ہیں لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایسے لوگوں کی تعداد میں بھی کئی گُنا اضافہ ہوا ہے جو طالبان اور پاکستانی ریاست کی جانب سے ان کی مبینہ حمایت کی مخالفت کرتے ہیں۔

ایسے زیادہ تر پشتون خطے میں جاری نہ ختم ہونے والی جنگ سے بیزار ہو چکے ہیں اور وہ ان علاقوں میں ہونے والی تباہی کی ذمہ داری طالبان اور اسلام آباد حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان طاقت پکڑ رہے ہیں اور لبرل پشتونوں کو ڈر ہے کہ طالبان پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں بھی پھر سے لوٹ آئیں گے۔


افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں ابھی سے طالبان کے جھنڈے تھامے ہوئے پاکستانی شہری کئی مرتبہ نعرہ بازی کرتے دکھائی دے چکے ہیں۔ ملک کے کئی دیگر علاقوں میں بھی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے افغان طالبان کی حمایت اور ان کے لیے چندے کی اپیلیں کیے جانے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ اس طرح کی اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب افغانستان سے ستمبر میں نیٹو فورسز کا انخلا مکمل ہونے سے قبل طالبان تیزی سے ملک کے کئی علاقے اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں۔

طالبان کی مخالفت

ترقی پسند پشتونوں نے افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال پر گفتگو کے لیے حال ہی میں خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں ایک کنونشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء نے افغان فورسز پر طالبان کے حملوں کی مذمت کی اور دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیل اس جنگجو گروپ کو عملی طور پر جائز قرار دینے کے مترادف ہے۔


کنونشن میں نمایاں قوم پرست پشتون جماعتیں، بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے سیاسی کارکن، دانشور اور ماہرین تعلیم بھی شامل تھے۔ شرکا نے افغانستان بھر میں فوری طور پر جنگ بندی اور امن مذاکرات شروع کیے جانے کے مطالبات کیے۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے بھی گزشتہ ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر جلسوں کا انعقاد کیا جن میں طالبان کی مذمت اور افغان حکومت کی حمایت کی گئی۔

اشرف غنی کی حمایت

پی ٹی ایم کے رہنما سید عالم محسود کا خیال ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو افغان اور پاکستانی پشتونوں کو ایک سی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محسود نے کہا، ’’ہم صدر اشرف غنی کی حکومت کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ وہ جائز حکومت ہے۔ طالبان پاکستان کے کرائے کے فوجی ہیں جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔‘‘


سید عالم محسود کا کہنا تھا کہ طالبان کے برعکس اشرف غنی کی حکومت نے افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیے اور ان کے اقتدار کے دوران ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال میں بھی بہتری آئی۔

پاکستانی اسمبلی کی سابق رکن اور پشتون سیاست دان بشریٰ گوہر بھی محسود کے اس تجزیے سے اتفاق کرتی ہیں۔ بشریٰ گوہر کے مطابق، ’’پی ٹی ایم اور دیگر پشتون گروپ اشرف غنی کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ ہمارے لوگ طالبان کے وحشیانہ دور اقتدار کی طرف نہیں لوٹنا چاہتے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کی پیش قدمی کے باوجود افغان ان کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں: ’’ہم نے افغانستان میں طالبان کے خلاف بغاوت شروع ہوتے دیکھی ہے۔ عوام حکومت اور سکیورٹی فورسز کی حمایت میں سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔‘‘


پشاور میں مقیم سیاسی تجزیہ کار صائمہ آفریدی کہتی ہیں کہ سرحد کے دونوں طرف مقیم پشتون تعلیم، انسانی حقوق اور جمہوریت چاہتے ہیں جب کہ طالبان ان چیزوں کے خلاف ہیں۔

’پراجیکٹ طالبان‘

پاکستانی حکام کافی عرصے سے لبرل پشتون گروپوں اور پی ٹی ایم پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے کہنے پر ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ پی ٹی ایم نے گزشتہ چار برسوں کے دوران نمایاں طور پر مضبوط ہوئی ہے اور ان کے جلسوں میں ہزاروں افراد شریک ہوتے رہے ہیں۔ ان کے حامی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے باعث افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقے متاثر ہوئے ہیں۔


پشاور یونیورسٹی میں ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اگر صدر اشرف غنی کی حکومت ختم ہو گئی تو پی ٹی ایم کو شدت پسند اور پاکستانی حکام، دونوں ہی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی پسند پشتونوں کو ہدف بنایا گیا تو اس خطے میں تباہ کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ سرفراز خان کہتے ہیں کہ یہ گروہ اب تک پر امن ہیں لیکن اگر انہیں نشانہ بنایا گیا تو وہ بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔

بشریٰ گوہر کہتی ہیں کہ پاکستان کو ’پراکسی وار‘ اور ’طالبان پراجیکٹ‘ ختم کر کے افغان تنازعے کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے بشریٰ گوہر کا کہنا تھا، ’’اقوام متحدہ کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ طالبان کا دوحہ میں دفتر، ان کے پاکستان اور دیگر جگہوں پر ٹھکانے فوری طور پر ختم کیے جائیں اور طالبان رہنماؤں پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ ان پر جنگی جرائم کے مقدمات چلنا چاہییں۔ طالبان کی مدد کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں لگانا چاہییں۔ اب افغانوں کی نسل کشی ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔