کورونا وبا، چین میں بچوں کی شرح پیدائش مزید کم ہو گئی

دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں تعلیم کے ہوش رُبا اخراجات اور پرورش کے مسائل کی وجہ سے پہلے ہی بچوں کی شرح پیدائش بہت کم تھی ۔ کورونا وبا نے اس شرح میں مزید کمی کر دی ہے۔

کورونا وبا، چین میں بچوں کی شرح پیدائش مزید کم ہو گئی
کورونا وبا، چین میں بچوں کی شرح پیدائش مزید کم ہو گئی
user

Dw

چین کے 'نیشنل ہیلتھ کمیشن‘ کی تصدیق شدہ خبر کے مطابق کورونا وائرس نے ملک میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے منصوبوں پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو لکھے گئے ایک خط میں کمیشن نے یہ بھی تحریر کیا کہ چین میں نوجوانوں کی شہری علاقوں کی طرف منتقلی، بہتر روزگار کے حصول کے لیے اعلیٰ تربیت پر وقت صرف کرنے، اپنے پیشے سے وابستگی اور بہتر کام کا ماحول بھی آبادی میں اضافے کی راہ میں رکاوٹوں کے اسباب میں شامل ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس ملک میں نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ریکارڈ حد تک کم ہو گی ہے۔ ماہرین کی پیش گوئیاں اس امر کی طرف نشاندہی کرتی ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں کم از کم دس ملین کی کمی واقع ہو گی جبکہ 2021 ء میں نئے پیدا ہونے والے بچوں کی کُل تعداد دس اعشاریہ چھ ملین تھی جو کہ 2020 ء کے مقابلے میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد کم تھی۔چین میں شادی شدہ جوڑوں کو اب تین بچوں کی پیدائش کی اجازت ہے۔


گزشتہ برس عوامی جمہوریہ چین میں فی کس شرح پیدائش 1.16 فیصد رہی، جو دنیا کے تمام دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم شرح پیدائش تھی۔ یورپی ادارہ برائے اقتصادی ترقی و تعاون او ای سی ڈی میں شامل ممالک کی شرح پیدائش کے مقابلے میں دو اعشاریہ ایک فیصد کم ہے۔ اس ادارے میں شامل یورپی صنعتی ممالک دراصل اسے آبادی کی مستحکم ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

ون چائلڈ پالیسی

چین میں 1980ء سے 2015 ء تک 'ون چائلڈ پالیسی‘ یا ایک بچہ پالیسی پر سخت عمل درآمد کیا جاتا رہا۔ رفتہ رفتہ بیجنگ حکومت کو یہ ادراک ہوا کہ بچوں کی پیدائش پر اس سخت کنٹرول سے چین کی آبادی کے سُکڑنے کے خطرات بہت زیادہ پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب ملک میں معاشی بدحالی ہوا کیونکہ بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی ملک میں بوڑھے افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ نوجوانوں کو بوڑھے افراد کی مالی اعانت اور ان کی نگہداشت کرنا پڑتی ہے۔


چینی حکام کو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کو ایسی سہولیات فراہم کرنا پڑیں، جو انہیں ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے کی ترغیب دلائیں۔ بہتر ہیلتھ انشورنس، زچگی کے بعد طویل چھٹیاں، تیسرے بچے کے لیے اضافی''بینیفٹ‘‘ یا اضافی رقم وغیرہ متعارف کروائی گئیں۔

پچھلے پچاس سالوں میں چین میں پیدائش کی شرح

تازہ ترین مردم شماری سے یہ انکشاف ہوا کہ چین میں اس وقت شرح پیدائش، جس سست روی سے بڑھ رہی ہے، اس کی مثال 1950ء کے عشرے میں بھی نہیں ملتی۔ گزشتہ دہائی میں چین میں بچوں کی شرح پیدائش میں صرف 5.38 فیصد کا اضافہ ہوا۔


دوسری جانب امریکہ کی آبادی اس کے مقابلے میں مثبت طریقے سے ترقی پر ہے۔ یہ انکشاف چین کے ایک مرکزی بینک کے ایک ورکننگ پیپر سے ہوا ہے۔ اس دستاویز میں اقوام متحدہ کی پیشگوئیوں کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق امریکہ کی آبادی میں 2019 ء تا 2050 ء تک 15 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب چین کی آبادی کے 2.2 فیصد تک سُکڑ جانے کے امکانات ہیں۔ چینی مرکزی بینک نے انتباہ کیا ہے کہ ملک کی تعلیم اور تکنیکی ترقی یہاں کی آبادی کے سکڑنے کا ازالہ نہیں کر سکتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔