باپ نے بیٹی کو ہی بنایا اپنی ہوس کا شکار

ایک جرمن عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ملزم باپ نے اپنی ہی بیٹی کو اکسٹھ مرتبہ جنسی حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا، جب اس کی بیٹی کھلونوں سے کھیلنے کی عمر کی تھی۔

’بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ زیادہ تر قابل بھروسہ افراد ہی بناتے ہیں‘
’بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ زیادہ تر قابل بھروسہ افراد ہی بناتے ہیں‘
user

ڈی. ڈبلیو

جرمنی کی تاریخ میں کم عمر بچوں کے ساتھ آن لائن جنسی تشدد کا سب سے بڑا کیس عدالت میں پیش ہو چکا ہے۔ اس کیس کے ایک مرکزی ملزم پر الزام ہے کہ اس نے اپنی نو عمر بیٹی کے ساتھ جنسی تشدد کیا اور اس کی ویڈیوز آن لائن چیٹ گروپوں میں شیئر بھی کیں۔

جرمنی میں عام لوگوں کے نجی کوائف سے متعلق قوانین کی وجہ سے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم باپ نے اپنی ہی بیٹی کو اکسٹھ مرتبہ جنسی حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات اس وقت شروع ہوئے، جب اس کی بیٹی کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں تھی۔


اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ڈورتھی چینسکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بے شک یہ جرمنی میں بچوں پر جنسی تشدد کرنے والا سب سے بڑا بین الاقوامی آن لائن گروہ ہے لیکن ایسا نہیں کہ اپنی نوعیت کا یہ واحد گروہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ملوث ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے اور اسی طرح کے دیگر مجرمانہ گروپوں کو بھی منظر عام پر لانا چاہیے۔

جرمن پولیس کے مطابق شبہ ہے کہ اس نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ پولیس کو اس کیس کے حوالے سے کئی شواہد ملے ہیں، جس کی بنیاد پر کچھ افراد کے خلاف کارروائی جاری ہے اور مزید لوگوں کے نام یا تفصیلات منظر عام پر آنے کی امید ہے۔


ڈورتھی چینسکی کے مطابق کم عمر بچوں کی طرف جنسی میلان ایک بیماری ہے، جس کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔ ایسے ذہنی رجحانات رکھنے والے افراد بچوں کو شہوانی انداز میں چھوتے ہیں، سیکس پر گفتگو کرتے ہیں، فحش مواد دکھاتے ہیں، تشدد کرتے ہیں اور جنسی زیادتی بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بچوں کی فحش تصاویر اور ویڈیو آن لائن بھی شیئر کرتے ہیں اور کچھ لوگ صرف بچوں کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ہی لذت محسوس کرتے ہیں۔

ڈورتھی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف جرمنی کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسے ذہنی مریض پائے جاتے ہیں، جو بچوں کے ذریعے اپنی بیمار جنسی خواہشات کی تکمیل کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر بچوں کے خلاف ایسی کریہہ کارروائیاں کرنے والے افراد ان بچوں کے والدین کے بھروسے کے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے والدین کو چوکنا رہنا چاہیے۔


ڈورتھی چینسکی نے مزید کہا کہ جرمنی میں بچوں پر جنسی تشدد ابھی تک ایک شجر ممنوعہ ہے، جس پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کئی والدین اس طرح کے تشدد کو رپورٹ ہی نہیں کرتے، جس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ والدین کو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں وہ کسی پر غلط الزام ہی نہ دھر دیں۔

ڈورتھی چینسکی کے مطابق اگر والدین کو شک بھی گزرے تو انہیں اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کرنا چاہیے اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے گائیڈ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب انتہائی کم عمر بچوں کو اس طرح کے حملوں کا سامنا ہوتا ہے، تو اس صورت حال سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس تناظر میں ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ بالخصوص والدین کا کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔


جرمنی میں اس اسکینڈل کی زد میں آنے والے بچے اب ادھیڑ عمر میں پہنچ چکے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چالیس سال قبل اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نقوش اب تک اس کے ذہن سے مٹ نہیں سکے۔ یہ شخص اب بھی اپنی اندوہناک یادوں کے ساتھ زندہ ہے۔ تاہم اس کی کوشش ہے کہ مزید کسی بچے کو ایسی دلدل میں گرنے نہ دے۔ اسی لیے اس نے بچوں کے تحفظ کے لیے ایک ادارہ بنایا ہے، جس کے ذریعے وہ والدین اور بچوں کو شعور و آگاہی دینے کا کام کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Aug 2020, 6:11 AM
/* */