بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور پاکستانی شاعر کا شعر’جانے والے تو ہمیں بہت یاد آئے گا‘

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے جسٹس ایم آر شاہ کی الوداعی تقریب کے دوران اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے پاکستانی شاعر عبید اللہ علیم کے شعر کا سہارا لیا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور پاکستانی شاعر کا شعر
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور پاکستانی شاعر کا شعر
user

Dw

بھارتی سپریم کورٹ کے لیے منظور شدہ 34 ججوں میں سے چوتھے سینئر ترین جج جسٹس مکیش کمار رسک بھائی شاہ (ایم آر شاہ) کے ریٹائرمنٹ پرالوداعی تقریب منعقد کی گئی۔ ان کے اعزاز میں چیف جسٹس ڈی وی چندر چوڑ کی سربراہی میں الوداعیہ دینے کے لیے ایک باضابطہ بنچ قائم کی گئی تھی۔

2 نومبر 2018 کو سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے جسٹس شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب بھارتی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کم ہو کر 32 رہ گئی ہے۔ ایک روز قبل ہی جسٹس دنیش مہیشوری بھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔


چیف جسٹس چندر چوڑ نے جسٹس شاہ کی خدمات، ان کی ہمت، جرأت اور لگن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ان کی غیر موجودگی کو ہر کوئی انتہائی شدت سے محسوس کرے گا۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے پاکستانی شاعر عبیداللہ علیم کے اس شعر کا سہارا لیا۔

" آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا۔ جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا"

جسٹس چندرچوڑ کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس ہارٹ اٹیک کے باوجود جسٹس شاہ نے جس ہمت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھا اسی وجہ سے وہ انہیں " ٹائیگر شاہ" کہتے ہیں۔


'جینا یہاں مرنا یہاں'

جسٹس شاہ نے بھی بھارتی عدلیہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور بعض اہم واقعات کا ذکر کرتے ہوئے راج کپور کی فلم 'میرا نام جوکر' کا مشہور گیت "جینا یہاں مرنا یہاں" کے بعض اشعار گنگائے۔

انہوں نے جذباتی انداز میں کہا، "کل کھیل میں ہم ہوں نا ہوں، گردش میں تارے رہیں گے سدا۔"

جسٹس شاہ کا کہنا تھا، "میں نے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے انجام دینے کی کوشش کی۔ ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز کو سنا، میں خدا اور اعمال پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے کسی چیز کی توقع نہیں کی...ہمیشہ گیتا کے اپدیشوں پر عمل کیا۔" انہوں نے کہا کہ وہ اب اپنی زندگی کی ایک نئی اننگز شروع کرنے جارہے ہیں۔


عبید اللہ علیم کون تھے؟

پاکستانی شاعرعبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو غیر منقسم بھارت کے بھوپال شہر میں پیدا ہوئے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان چلے گئے۔ 1969ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر بعض اسباب کی بناپر 1978ء میں ملازمت سے استعفا دے دیا۔

عبید اللہ علیم کی شاعری کا پہلا مجموعہ ''چاند چہرہ ستارہ آنکھیں'' 1978ء میں شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں ''ویران سرائے کا دیا'' اور ''نگارِ صبح کی امید'' شامل ہیں۔ ان کی دو نثری تصانیف ''کھلی ہوئی ایک سچائی'' اور ''میں جو بولا'' کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ عبید اللہ علیم کا18مئی 1998کو کراچی پاکستان میں انتقال ہوگیا۔


بھارتی چیف جسٹس نے عبیداللہ علیم کی جس غزل سے شعر مستعار لیا وہ اس طرح ہے:

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا

جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو

زندگی بھر کوئی اب خواب ہی دوہرائے گا

ٹوٹ جائیں نہ کہیں پیار کے نازک رشتے

وقت ظالم ہے ہر اک موڑ پہ ٹکرائے گا

عشق کو جرم سمجھتے ہیں زمانے والے

جو یہاں پیار کرے گا وہ سزا پائے گا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔