کراچی: جہاں نہ جینا سہل، نہ مرنا آسان

کراچی کے رہائشیوں کی مشکلات صرف زندگی کی حد تک نہیں بلکہ ’مر کے بھی چین نہ ملا تو کدھر جائیں گے‘ کے مصداق موت کے بعد قبر کے لیے دو گز زمین کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کراچی: جہاں نہ جینا سہل ہے، نہ مرنا آسان
کراچی: جہاں نہ جینا سہل ہے، نہ مرنا آسان
user

Dw

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مرنے والوں کے لیے قبرستانوں میں جگہ ختم ہورہی ہے۔ لیکن صحیح آدمی کو درست قیمت ادا کرنے پر زمین کا یہ ٹکڑا میسر ہو ہی جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہو پاتا ہے کیونکہ گورکن مافیا پرانی قبروں کو ختم کر کے نئی لاشوں کے لیے جگہ بنا دیتے ہیں۔

اس گنجان آباد ساحلی شہر کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے اور یہاں موجود پاکستان ایمپلائز کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے قبرستان میں پانچ سال قبل ہی جگہ مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی۔ پرانی قبریں اور بعض قبروں پر تعمیر کردہ کتبے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کچھ قبریں تو اس حد تک خستہ حال ہیں کہ زمین میں دھنس چکی ہیں جبکہ بعض قبروں کے چبوترے سطح زمین سے کہیں بلند ہیں۔ یہ اونچی اور نئی قبریں وہ ہیں جنہیں پیسوں کے عوض پرانی اور ٹوٹی پھوٹی قبروں کے اوپر بنانے کی اجازت مل جاتی ہے۔


مقامی باشندوں نے ان قبرستانوں میں لوگوں کو قبریں توڑتے اور ان کا ملبہ صاف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ خلیل احمد پیشے کے اعتبار سے گورکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''پورے کراچی میں تدفین کے لیے جگہ باقی نہیں بچی اس لیے اگر ہم نئی قبریں بنانا چاہتے ہیں تو پرانی قبریں توڑنا پڑیں گیں۔‘‘ کراچی کے اس ضلع میں تدفین کی فیس سرکاری طور پر 7,900 روپے ہے لیکن یہاں کے رہائشی لوگوں نے گزشتہ سال پی ای سی ایچ ایس قبرستان میں اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرنے کے لیے 55,000 سے 175,000 تک کی رقوم بھی ادا کی ہیں۔

پاکستان کی آبادی اس وقت 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی میں ہر سال 40 لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے جیسے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے لوگ کام کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ محمد اسلم نے کراچی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس شہر میں گورکن مافیا کو بھی پروان چڑھتے دیکھا ہے۔


ان کا کہنا ہے کہ 1953ء میں جب وہ وہاں منتقل ہوئے تب پی ای سی ایچ ایس کا یہ قبرستان ایک بنجر ریتلہ علاقہ تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے شہر خموشاں میں تبدیل ہوگیااور اس دوران ان ہی کے خاندان کے انتقال کر جانے والے 14 لوگوں کی تدفین کے لیے مختلف قیمتیں ادا کی گئیں۔

1967ء میں اسلم کی فیملی نے ان کے دادا کی قبر کی قیمت 50 روپے ادا کی تھی لیکن ان ہی کے ایک اور رشتے دار کی تدفین 2020ء میں 33 ہزار روپے میں کی گئی۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ترجمان علی حسن سجاد کے مطابق کراچی کے بنیادی مسئلہ انفراسٹرکچر کا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''کے ایم سی شہر میں موجود قریب 250 قبرستانوں میں سے 39 کی دیکھ بھال کرتا ہے جن میں بشمول پی ای سی ایچ ایس کے چھ قبرستان مکمل طور پر بھر جانے کی وجہ سے بند کر دیے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس بات کا کھلم کھلا اقرار کیا کہ شہر میں گورکن مافیا موجود ہے اور وہ پرانی قبروں پر نئی قبریں بنانے اور بند قبرستانوں میں بھی تدفین کروانے میں مصروف ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مافیا کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔


ساجد کے مطابق اس پورے معاملے میں صرف یہ مافیا قصور وار نہیں بلکہ لوگ بھی اپنے عزیز رشتے داروں کو اپنی پچھلی نسلوں کے قریب دفنانے کی خواہش میں ان لوگوں کو زیادہ رقوم ادا کرتے ہیں جو اس مافیا کی لالچ کو مزید بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن حکام اور گورکن مافیا کی اس کھینچ تان میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہورہا ہے جن کے پیارے اپنی آخری آرام گاہ میں بھی محفوظ نہیں۔ کورنگی قبرستان میں محمد منیر ہر سال اپنے والد کی قبر پر دعا کرنے آتے تھے لیکن اس قبر کے نشان ختم ہوئے بھی اب 20 سال ہونے کو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کے جائے تدفین پر ایک نئی قبر تعمیر کر دی گئی تھی۔ اور حد تو یہ کہ حال ہی میں اس دوسری قبر پر ایک اور نئی قبر بنا دی گئی ہے۔

منیر کہتے ہیں، ''یہ میرے والد کی آخری نشانی تھی لیکن میں کچھ سال کے وقفے کے بعد ان کی قبر پر گیا تو دیکھا کہ وہاں ایک نیا کتبہ نصب تھا۔ یہ میرے لیے بہت درد ناک ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ اب وہ کہاں دفن ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔