لاہور میں لڑکیوں کے لیے پیدل چلنا منع ہے!

میں کچھ سال قبل لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل میں ملازمت کرتی تھی۔ چینل کا دفتر پریس کلب کے پاس تھا۔ میرے پاس اس وقت گاڑی نہیں تھی اور میں لوکل رکشے پر دفتر آیا جایا کرتی تھی۔

لاہور میں لڑکیوں کے لیے پیدل چلنا منع ہے!
لاہور میں لڑکیوں کے لیے پیدل چلنا منع ہے!
user

Dw

یہ میری صحافت کا آغاز تھا اور ہر چیز نئی لگتی تھی۔ اس وقت میں پریس کلب سے کچھ پہلے اپنی سواری سے اتر جایا کرتی تھی۔ پریس کلب کے باہر روزانہ ہی کوئی نہ کوئی احتجاج ہو رہا ہوتا تھا۔ میں احتجاج دیکھتے ہوئے پیدل ہی دفتر چلی جاتی تھی۔ مجھے پریس کلب سے دفتر جانے میں قریباً دس منٹ لگتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں ان دس منٹوں نے مجھے بتا دیا کہ اس شہر میں پیدل چلنا منع ہے۔

ان دس منٹوں میں کبھی کوئی رکشے والا میرے پاس رک کر مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا تھا تو کبھی کوئی موٹر سائیکل والا مجھ سے زرا آگے رک کر میرے پیچھے بیٹھنے کا انتظار کرتا تھا۔ کبھی کبھار گاڑیاں بھی آ کر رکتی تھیں۔ میری برداشت کچھ ہی دن میں جواب دے گئی اور میں نے وہ زرا سا فاصلہ بھی پیدل طے کرنے سے توبہ کر لی۔


کچھ سال بعد میں تعلیم کے سلسلے میں چین کے دارالحکومت بیجنگ منتقل ہو گئی۔ میں نے بیجنگ میں اپنے تین سالہ قیام کے دوران جو آزادی محسوس کی، وہ اس سے پہلے میں نے لاہور رہتے ہوئے کبھی تصور بھی نہیں کی تھی۔

لاہور میں کبھی کسی سڑک پر یا کسی علاقے میں پیدل چلنا پڑتا تھا تو میں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی تھی کہ کہیں کوئی موٹر سائیکل والا چپ چاپ میرے پیچھے نہ آ رہا ہو۔ بیجنگ میں کبھی ایسا خیال بھی ذہن میں نہیں آیا۔ وہاں آدھی رات کے بعد بھی سڑکیں محفوظ معلوم ہوتی تھیں۔ یہ تو ہراسگی کی بات ہو گئی، مجھے وہاں کبھی کسی فٹ پاتھ پر گندگی یا تجاوزات نظر نہیں آئیں۔ نہ ہی کبھی کسی نے مجھے پیدل چلتا ہوا دیکھ کر عجیب نظروں سے دیکھا۔


ایک دفعہ میری ایک چینی دوست نے مجھے ایک قریبی ریستوران میں کھانے پر مدعو کیا۔ ہم دونوں بس کے ذریعے ریستوران پہنچے اور واپس پیدل آئے۔ میں نے اسے راستے میں بتایا کہ میں اپنے شہر میں اس طرح پیدل نہیں چل سکتی۔ وہ بہت حیران ہوئی۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے شہر میں پیدل چلنے کا رواج نہیں ہے۔

میرے ملک کے لوگ سست اور شاہی مزاج کے ہیں۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے باہر سے گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور اپنی منزل کے عین باہر جا کر اترتے ہیں۔ حکومت بھی اسی مزاج کی ہے۔ جو حکومت میں آتا ہے، اپنے لیے آتا ہے۔ عوام کے لیے مشکل سے ہی کوئی کام کرتا ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں عوام کے چلنے کے لیے صاف ستھرے اور چوڑے فٹ پاتھ موجود نہیں ہیں تو باقی شہروں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


اسے جانے کیا سمجھ آیا اور کیا اس کے سر کے اوپر سے گزرا۔ اس نے بس مجھے دیکھا اور کہا یہاں ایسے مسئلے نہیں ہیں۔ یہاں فٹ پاتھ بھی موجود ہیں اور ہم پیدل چلنا پسند بھی کرتے ہیں۔ ہمارے شہر ہی کچھ اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر بیت سا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔

بیجنگ سمیت چین بھر میں پیدل چلنا ایک رواج ہے۔ وہان ہر سڑک کے ساتھ چوڑے اور صاف ستھرے فٹ پاتھ موجود ہیں۔ لوگ مختصر فاصلے پیدل ہی طے کرتے ہیں۔ کوئی کسی کو عجیب نظروں سے نہیں دیکھتا نہ تنگ کرنے کوشش کرتا ہے۔ سب اپنے دھیان میں مگن انتہائی تمیز کے ساتھ اپنے اور دوسروں کے حقوق کو دھیان میں رکھتے ہوئے فٹ پاتھ کا استعمال کرتے ہیں۔


لاہور واپس آتے ہوئے مجھے پتہ تھا کہ وہاں کے حالات ویسے ہی ہوں گے۔ میرے شہر نے مجھے بالکل مایوس نہیں کیا۔ میں اپنے شہر کو جس طرح چھوڑ کر گئی تھی مجھے اپنا شہر بالکل ویسا ہی ملا بلکہ کہیں کہیں اس سے بری حالت میں بھی ملا۔

پچھلے ہفتے اپنے پرانے دفتر کے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ چار سال بعد بھی اس راستے میں موجود فٹ پاتھوں کا وہی حال تھا۔ کہیں فٹ پاتھ ٹوٹے ہوئے تھے تو کہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے نیچے گم تھے تو کہیں تجاوزات کے باعث عوامی استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھے۔


ایک آدھ جگہ ہیروئنچی بیٹھے ہوئے بھی نظر آئے۔ ایک کونے میں ایک آدمی دیوار کی طرف منہ کیے اکڑوں بیٹھا ہوا بھی نظر آیا۔ چار سال پہلے بھی ان فٹ پاتھوں پر نہیں چلا جا سکتا تھا اور چار سال بعد بھی وہاں کوئی نہیں چل سکتا تھا۔

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ پٹرول کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ میٹرو بس اور سپیڈو بس کے علاوہ اورنج ٹرین بھی فعال ہے۔ حکومت چاہے تو شہر کے فٹ پاتھوں کی حالت بہتر کر کے انہیں عوام کے استعمال کے قابل بنا سکتی ہے۔


لوگوں کو پیدل چلنے کے لیے صاف ستھرے اور محفوظ فٹ پاتھ ملیں گے تو وہ پیدل چلنے کی عادت بھی اپنا لیں گے۔ اس سے ہماری سڑکوں سے گاڑیوں کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ لوگ با آسانی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کر سکیں گے ورنہ اس شہر کا حال بھی کراچی جیسا ہوگا، جس کی ہر سڑک اور اس کے ساتھ موجود فٹ پاتھ اجڑے حال میں موجود ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔