کیا بھارت میانمار کی فوج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے؟

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارت کی سرکاری اور نجی کمپنیوں نے میانمار کی فوجی حکومت کو اسلحہ اور خام مال فراہم کیا ہے۔ میانمار کے جمہورت نواز کارکنوں نے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔

کیا بھارت میانمار کی فوج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے؟
کیا بھارت میانمار کی فوج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے؟
user

Dw

فروری 2021ء میں میانمار میں فوجی جنتا کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے بھارت کی نجی اور سرکاری ملکیت والی کمپنیوں نے کم از کم 51 ملین ڈالر کی مالیت کا اسلحہ، خام مال اور اس سے متعلق سازوسامان میانمار کی فوج اور اسلحہ کا کاروبار کرنے والوں کو بھیجا ہے۔

گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے 22 کمپنیوں نے میانمار فوج کی جانب سے مخالفین اور ناقدین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے دوران ہتھیار بھیجے۔ ان میں بھارت ڈائنامکس، بھارت الیکٹرانکس اور ینترا انڈیا جیسی سرکاری کمپنیوں کے علاوہ سندیپ میٹل کرافٹ اور لارسن اینڈٹیوبرو جیسی نجی کمپنیاں شامل تھیں۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے میانمار کو ایسے سازو سامان کی مسلسل سپلائی کی گئی، جو نگرانی کے علاوہ توپ خانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو بڑھانے میں استعمال ہوتے ہیں اور ان کو روایتی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ میانمار کی فوج کو جو اسلحہ فراہم کر رہا ہے، گوکہ نسبتاً محدود ہے، لیکن اس کا استعمال بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے جرائم کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ فروری 2021ء میں جنرل من آنگ ہلینگ کی قیادت میں فوج کی جانب سے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد سے ملک میں حالات کشیدہ ہیں۔


روس، چین اور سنگاپور بھی اس فہرست میں شامل

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے علاوہ روس، چین، سنگاپور اور تھائی لینڈ نے بھی میانمار کی فوج کو تقریباً ایک ارب ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ اس میں ہتھیاروں کے ڈیلرز بھی شامل ہیں۔ روس، چین اور سنگاپور میانمار کی فوج کو جدید ترین ہتھیاروں کے اہم سپلائرز ہیں۔ فروری 2021ء کی بغاوت کے بعد سے انہوں نے سرکاری کمپنیوں کے ذریعہ بالترتیب 400 ملین ڈالر، 260 ملین ڈالر اور 250 ملین ڈالر کے اسلحے اور دیگر عسکری سامان میانمار کو سپلائی کیا ہے۔

میانمار میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز کا کہنا ہے، "اس کی وجہ یہ ہے کہ پابندیوں کو مناسب طور پر نافذ نہیں کیا جا رہا ہے اور اسی لیے فوجی جنتا سے وابستہ ڈیلر ان پابندیوں سے بچنے کے لیے شیل (فرضی) کمپنیاں بنانے میں کامیاب ہو گئے۔"


بھارت کے فوجی جنتا کے ساتھ مشتبہ تعلقات

میانمار میں جمہوریت نواز قائدین اور کارکنان بھارت کی طرف سے اسلحے کی فراہمی کے ذریعہ فوجی جنتا کی مدد اور حمایت سے حیرت زدہ ہیں۔ میانمار پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے صدر زا توسینگ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "بھارت خطے کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود فوجی حکومت کے ساتھ تعلقات کی اپنی متضاد پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حالانکہ فوجی جنتا بھارت کے لیے بھروسہ مند شراکت دار نہیں اور اس سے بھارت کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہو گا۔"

انہوں نے خبردار کیا کہ نئی دہلی اور فوجی جنتا کے درمیان تعلقات اس ملک میں چین کے اثر و رسوخ کو روکنے میں مددگارثابت نہیں ہوں گے۔ زا توسینگ کا کہنا تھا،" اگر بھارت کی پالیسی اسی طرح جاری رہی تو فائدے سے کہیں زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔"


میانمار کی جلاوطن نیشنل یونٹی گورنمنٹ (یو این جی) کے نائب وزیر خارجہ موئے زاو او نے کہا کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ بھارت میانمار کی فوج کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ موئے زاو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "میانمار کے عوام اسے یاد رکھیں گے اور اس کا اثر دونوں ملکوں کے طویل المدتی تعلقات پر پڑے گا۔ بھارت کی حکومت کو کاروباری مفادات کے بجائے ہمارے لوگوں کی خواہشات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔"

بھارت کی وضاحت

بھارتی نمائندوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کو بتایا کہ میانمار کی فوجی حکومت کو جو ہتھیار سپلائی کیے گئے ہیں وہ دراصل بغاوت سے پہلے سویلین حکومت کے ساتھ کیے گئے وعدے کے تحت ہیں اور وہ اپنی ملکی سلامتی کے خدشات کے مدنظر برآمد کیے گئے تھے۔


رپورٹ کے مطابق بھارتی نمائندے کا کہنا تھا، "بھارت میانمار کو ہتھیار سپلائی کرنے والا نہ تو کبھی سب سے بڑا ملک رہا ہے اور نہ ہی ہے۔ بھارت صرف اپنی ماضی کے وعدوں کو پورا کر رہا ہے۔ ہماری برآمدات کی نہایت واضح طور پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ہم میانمار کے عوام کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔"

اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق رواں برس 6 مارچ تک میانمار میں 17 لاکھ چار ہزار کے قریب افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔آزاد ذرائع کے مطابق فرور ی 2021ء سے اب تک کم از کم 2940 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، 17572کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ان میں سے 13763 اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */