کیا جرمنی کو ’مذہبی شدت پسندی‘ سے خطرہ ہے؟

دو مشتبہ افراد کی گرفتاری نے ایک بار پھر جرمنی کے لیے دہشت گردی کے خطرے سے متعلق سوالات کھڑے کر دیے۔ اس سے ایک بار پھر 2016ء میں برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے حملے کی بھی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔

کیا جرمنی کو ’مذہبی شدت پسندی‘ سے خطرہ ہے؟
کیا جرمنی کو ’مذہبی شدت پسندی‘ سے خطرہ ہے؟
user

Dw

گزشتہ چند برسوں کے دوران جرمنی میں دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے وسیع اقدامات کے باوجود حال ہی میں دو مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری نے جرمنی میں اسلام کے نام پر کی جانے والی شدت پسندی کے آسیب کو سامنے لاکھڑا کر دیا ہے۔ ڈوسلڈورف کے دفتر استغاثہ کی طرف سے رواں ہفتے اعلان کیا گیا کہ مذکورہ افراد ریسین اور سائنائیڈ کی مدد سے 'نامعلوم تعداد میں لوگوں‘ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ پولیس کے مطابق جرمنی کی شمالی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے ایک چھوٹے شہر کاسٹروپ راؤسل سے آٹھ جنوری کو گرفتار کیے جانے والے ان دونوں افراد کے قبضے سے کسی طرح کا بم بنانے کا کوئی سامان نہیں ملا۔ تاہم ایران سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں بھائی پولیس کی حراست میں ہی ہیں۔ ان کی عمریں 25 اور 32 برس ہیں اور یہ 2015ء میں جرمنی آئے تھے۔

مختلف اپارٹمنٹس اور گیراج کی تلاشی پر کوئی ثبوت حاصل نا ہونے کے باوجود تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ یہ مشتبہ دہشت گرد سائنائیڈ اور ریسین نامی زہریلے مادے حاصل کرنا چاہتے تھے جو بہت کم مقدار میں بھی بہت زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین کے صدر تھوماس ہالڈین وانگ نے جون 2022ء میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ''بحیثیت مجموعی، صورتحال پر چھوٹے گروپ اور افراد غالب ہیں جو اپنے طور پر عمل کر رہے ہیں اور جنہیں آن لائن پراپیگنڈا کے ذریعے بھرتی اور شدت پسند بنایا گیا۔ یہ رپورٹ سے زیادہ ایک پیشن گوئی کی طرح محسوس ہوا اور گرفتار ہونے والے دونوں افراد اس صورتحال کے خاکے پر پورا اترتے ہیں۔


دفتر برائے عوامی استغاثہ کے مطابق ان دونوں بھائیوں سے متعلق خفیہ معلومات امریکا کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔ وزیر خارجہ نینسی فایزر کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار سے اب تک جرمنی میں ایسے 21 دہشت گردانہ حملوں کی کوششوں کو روکا جا چکا ہے۔ تاہم یہ سب غیر ملکی انٹیلیجنس اداروں خصوصاﹰ امریکا کی مدد کے بغیر کرنا مشکل تھا۔

برلن کے جرمن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سکیورٹی افئرز سے تعلق رکھنے والے ماہر، گوڈیو شٹائن برگ نے سن 2021 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ جرمنی میں انسداد دہشت گردی کے لیے امریکا پر بڑے پیمانے پر انحصار کرنے میں خطرہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق جرمنی کو سن 2001 سے اب تک مذہبی شدت پسندوں سے لڑنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔


پہلی نظر میں یہ حالیہ کیس جون 2018 میں جرمن شہر کولون میں دہشت گردی کے بے نقاب کیے گئے ایک بڑے منصوبے سے مشابہت رکھتا ہے جس میں ایک شخص کے اپارٹمنٹ سے ریسین کی بڑی مقدار برآمد ہوئی تھی۔ دو برس بعد اس شخص کو ریاست کے خلاف کاروائی کا الزام ثابت ہونے پر دس برس قید کی سزا سنائی گئی۔

جرمنی میں اب تک سنجیدہ نوعیت کا سب سے بڑا شدت پسندانہ حملہ دسمبر 2016 کو کیا گیا تھا جب انیس عامری نامی ایک شخص نے برلن کی کرسمس مارکیٹ میں تیز رفتار ٹرک ہجوم پر چڑھا دیا جس کی زد میں آکر بارہ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔


برلن میں اس حملے کے بعد دہشت گرد کاروائیوں اور ان کے منصوبوں کی تعداد میں بڑی حد تک کمی آئی تھی۔ گوڈیو شٹائن برگ کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ مشرق وسطیٰ میں شدت پسند تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ کا زوال اور امریکا کی جانب سے جاسوسی کی تیکنیک میں بہتری آنا ہے۔ تاہم جرمنی کی جانب سے کی جانے والی انسداد دہشت گردی کی کوششیں منتشر، بےربط اور غلطیوں کے اندیشوں سے بھرپور ہیں۔

درحقیقت نئے دہشت گردانہ حملوں کے خطرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن پولیس کے مطابق ان میں نظر آنے والی کمی کی ایک وجہ ’خطرناک افراد‘ کی تعداد میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ پولیس نے سن 2018 میں 770 شدت پسندوں کے ریکارڈ کا اندراج کیا تھا۔ دو برس بعد ان کی تعداد میں کمی آئی اور یہ تعداد 630 افراد پر مشتمل تھی اور اب ایسے صرف 530 افراد رجسٹرڈ ہیں۔


اس حوالے سے وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین کے صدر تھوماس ہالڈین وانگ کا اپنے ایک انٹرویو کے دروان کہنا تھا، ''حالیہ برسوں میں جرمنی میں ہونے والے تمام حملے شدت پسند نظریات رکھنے والے افراد نے ذاتی حیثیت میں کیے جن کے پیچھے کوئی تنظیم شامل نہیں تھی‘‘۔ اس انٹرویو کے چند ہفتوں بعد گرفتار ہونے والے ان دونوں بھائیوں کے بارے میں بھی ایسے ہی خیال کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔