کیا فیشن ایبل عورت بری ہوتی ہے؟

بچپن سے اب تک اخلاقیات کے ضمن میں ایک ہی بات بار بار سنتے آ رہے ہیں کہ فیشن ایبل ہونا شرفاء کا شیوہ نہیں۔ چند مخصوص طبقوں میں فیشن ایبل خواتین کو بہت آسانی سے بد کردار قرار دے دیا جاتا ہے۔

کیا فیشن ایبل عورت بری ہوتی ہے؟
کیا فیشن ایبل عورت بری ہوتی ہے؟
user

Dw

خاندان کی عورتیں جب کسی خاتون کی برائی بیان کر رہی ہوتیں ہیں تو اس میں قابل غور حصہ وہ ہوتا ہے، جہاں اس عورت کا حلیہ بیان کیا جاتا، جسے گلے میں دوپٹہ ہونٹوں پہ سرخی اور ایڑی والی جوتی پہنے منہ پھاڑ سر جھاڑ ٹکر ٹکر منہ اٹھا کے دیکھتی ہوئی۔

ہمیں بچپن میں یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ جس عورت کے سر پر دوپٹہ نہیں ہو گا اور وہ سرخی پاؤڈر لگائے ہوئے ہو گی تو وہ بے شرم، بے حیا اور بد کردار ہو گی۔ یہ الگ بات کہ ان تینوں الفاظ کا مفہوم ہمارے معصوم اذہان میں اپنے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں کبھی بھی واضح نہ ہو پاتا۔


وقت گزرنے کے ساتھ جب ہم نے لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس حلیے میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی ہیروئنز کو پایا۔ اب ہوتا کچھ یوں کہ ان کی ادائیں، ان کا پہناوا، بننے سنورنے کا انداز اور فیشن ایبل ہونا ہمیں شدید بھاتا لیکن چونکہ دماغ میں پہلے سے بنایا گیا تصور ان عورتوں اور ان کے فیشن کے متعلق کچھ اچھا نہ تھا تو اپنے گھر کے بڑوں کے سامنے اچھا بننے کے شوق میں انہیں جی بھر کے برا بھلا کہتے یعنی یوں سمجھیے کہ ہم انہیں دیکھتے تھے مگر برائی کی نگاہ سے۔

اس برین واشنگ کا نقصان یہ بھی ہوا کہ کلاس کی امیر اور جدید رواج کے مطابق زندگی گزارنے والی لڑکیوں کو بھی ہم جہنمی اور بری لڑکیاں خیال کرتے۔ کالج تک پہنچتے پہنچتے ذرا ہمت بندھی تو لمبے بالوں پر قینچی چلوانے کا حوصلہ جمع کیا لیکن بات پھر وہی کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم اچھی لڑکیاں نہیں رہیں گی۔ غرض ہر وہ کام جس سے ہم بااعتماد اور خوبصورت محسوس کر سکتے تھے خود کو وہ ہم سے کوسوں دور رکھا گیا اور باقی کی کسر ہم نے خود پوری کیے رکھی۔


اب قسمت نے ساتھ دیا یونیورسٹی جا پہنچے اور وہاں جا کے معلوم ہوا کہ جینز نامی لباس پہننے والی اور موبائل استعمال کرنے والی لڑکیاں بھی بری لڑکیوں کی فہرست میں شامل ہوتی ہیں۔ ہمیں لگا شاید پریکٹیکل زندگی کے معیارات کچھ بہتر ہوں مگر یہاں بھی وہی لوگ وہی معاشرہ اور وہی نظریات ہمارا استقبال کرنے کو موجود تھے۔

میری پہلی جاب ایک نجی ٹی وی چینل میں ہوئی اور وہاں جا کے سمجھ آیا کہ میڈیا میں کام کرنے والی لڑکیاں تو بری لڑکیوں کی بھی سپرلیٹو ڈگری ہوتی ہیں۔اور ان میں بھی درجات ہیں، جو بال گولڈن کرواتی ہیں، ٹی شرٹ اور جینز پہنیں گی وہ زیادہ بری، جو شلوار قمیض کے ساتھ گلے میں دوپٹہ رکھے گی وہ ذرا کم بری اور جو گاؤن پہن کے سر پر حجاب رکھے گی وہ اس سے بھی ذرا کم بری اور سب سے کم بری لڑکی وہ ہوتی تھی، جس کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔


مگر میڈیا اور شوبز جیسی فیلڈ میں شرفا کی بچیاں نہیں جاتیں یہ نظریہ اس قدر راسخ تھا کہ ہمیں ہمارے اپنے دوست احباب مشورہ دیتے کہ کسی کو اپنی جاب کے متعلق مت بتایا کرو۔ بات صرف یہاں تک رہتی تو صبر آجاتا ہم نے فیلڈ بدل لی اور استانی بھرتی ہو گئے یہاں بھی کچھ کم تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ان کے معیارات کے مطابق نئے فیشن اپنانے والی اور منہ متھے لگتی استانیوں کو ماڈل نہیں لگنا چاہیے بلکہ استانی ہونے کے لیے، جس قدر رف ٹف رہا اور لگا جا سکتا تھا وہ بہت ضروری تھا۔ اب اس سوچ کو مزید ہوا دینے کے لیے ہماری منی سکرین اور بڑی سکرین کے ڈراموں فلموں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہاں اگر پاپولر لٹریچر کی لکھاریوں کو بھی گنا جائے تو کچھ غلط نہیں ہو گا، جنہوں نے جدید فیشن اپنائے ہوئے کرداروں کو بہت ہی منفی اور ولن ٹائپ شکل میں پیش کیا۔ جبکہ اس کے مقابل عموما ایک روتی دھوتی سادہ سے حلیے کی لڑکی کو ہیروئن کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، جس میں اعتماد کا شدید فقدان پایا جاتا ہے، جو اپنے ہر کام کے لیے فلم یا ڈرامے کے ہیرو کی منتظر رہتی ہے بظاہر نہیں نہیں کی یہ پتلی لیکن دراصل ہیرو کو چھپ چھپ کر دیکھتی ہے۔


اور وہ جسے منفی کردار دیا جاتا ہے اگر تھوڑی دیر غیر جانبدار ہو کر دیکھیں تو ان میں سے اکثر بر سر روزگار، اپنی سوچ اپنا نظریہ رکھے ہوئے، اپنے کام اور خواہش کو لے کر بہت زیادہ مستقل مزاج اور جو کہتی ہے وہ ہی کرتی ہوئی عورت دکھائی دیتی ہے۔ جس سے درحقیقت ہمارا معاشرہ ہمیشہ سے خائف رہا ہے اس عورت کو ہم بد کردار، بد اخلاق اور بازار کی جنس سمجھ کر ناپسند کرتے رہے ہیں اور اس کے فیشن ایبل ہونے کو بھی اس کی کرداری خامیوں میں شمار کرتے رہیں ہیں۔

اس کے مقابل ہم ذہنی طور پر نا بالغ، معاشی طور پر دوسروں پر منحصر اور سماجی طور پر اپنی کسی واضح شناخت سے محروم، نئے زمانے کے تقاضوں سے عاری بظاہر سادہ و معصوم کرداروں کو آئیڈیل بنا کر پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور اسی سوچ کو جانے انجانے اگلی نسلوں تک منتقل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن ذرا رکیے اور سوچیے کہ کیا واقعی فیشن ایبل عورت بری ہی ہوتی ہے؟


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔