’ایرانی خواتین کو فٹ بال اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت ہو گی‘

ایران کے فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ نے گزشتہ روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ایرانی خواتین کو فٹ بال اسٹیڈیم میں جا کر میچ دیکھنے کی اجازت ہو گی۔

’ایرانی خواتین کو فٹ بال اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت ہو گی‘
’ایرانی خواتین کو فٹ بال اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت ہو گی‘
user

Dw

حال ہی میں روس کے خلاف ایک دوستانہ میچ کے دوران خواتین شائقین کو فقط اسٹینڈز تک جانے کی اجازت ہی دی گئی تھی۔ فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ کے اس بیان کے بعد بھی ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس موقف پر عمل درآمد کب سے شروع کیا جائے گا اور اس کے لیے کیا خاص شرائط رکھی جائیں گی۔

فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ مہدی تاج نے ایک تقریب کے موقع پر کہا، ''خوش قسمتی سے ملک کی سلامتی کونسل نے اس بات کی منظوری دے دی ہے اور اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔‘‘


ملک کے سخت گیر مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مرد شائقین کے ساتھ اسٹیڈیم میں خواتین کے جانے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ ایران میں حالیہ برسوں میں خواتین شائقین کے لیے مقرر کردہ ضوابط میں ورلڈ گورننگ باڈی فیفا کے دباؤ میں آکر پابندیوں میں کچھ نرمی کی گئی ہے۔

حالانکہ باضابطہ طور پر ایران میں خواتین پر میچز دیکھنے جانے پر پابندی نہیں ہے لیکن انہیں سٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایران کے مذہبی حکمران طویل عرصے سے خواتین کی مردوں کے فٹ بال میچوں کو دیکھنے کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایرانی خواتین پر 1979 کے انقلاب کے فوراً بعد مردوں کے فٹ بال میچوں کی میزبانی کرنے والے اسٹیڈیم میں داخلے کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔


عالمی فٹ بال کی گورننگ باڈی فیفا نے ستمبر2019 میں ایران کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ خواتین کو بغیر کسی پابندی کے اسٹیڈیم تک رسائی کی اجازت دے۔ جس کے بعد ایران نے اپنے فیصلے میں نرمی تو کی تھی لیکن وقتاﹰ فوقتاﹰ ایران میں خواتین کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے سے روکنے کے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں۔

فیفا کی جانب سے یہ ہدایات 29 سالہ ایرانی لڑکی سحر خُدایاری کی عدالت کے باہر خودسوزی کے بعد جاری کی گئی تھیں۔ سحر کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور انہیں 'غیر اسلامی حلیے‘ کی وجہ سے گرفتار کرنے کے بعد تین دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ رہا ہونے کے بعد انہوں نے خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔