خلیجی ریاستوں کی مغربی ممالک میں سرمایہ کاری خطرے کی گھنٹی؟

سعودی عرب، قطر اور یو اے ای نے بہت سے یورپی بینکوں، ٹیلی کام اور ٹیک کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس صورتحال نے مغربی ممالک میں سلامتی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔

خلیجی ریاستوں کی مغربی ممالک میں سرمایہ کاری خطرے کی گھنٹی؟
خلیجی ریاستوں کی مغربی ممالک میں سرمایہ کاری خطرے کی گھنٹی؟
user

Dw

سعودی عرب جب کرسٹیانو رونالڈو، نیمار اور کریم بینزیما جیسے کھلاڑیوں کو سالانہ سینکڑوں ملین یورو کے عوض ریاض آنے پر آمادہ نہ کر رہا ہو تو یہ خلیجی سلطنت مغرب کے خستہ حال کاروباروں میں جان ڈالنے کے لیے باقاعدگی سے سرمایہ کاری کر رہی ہوتی ہے۔

اپنے پڑوسیوں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور قطر کے ساتھ مل کرسعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) نے 2008-9ء کے مالیاتی بحران کے عروج پر تیل کی قیمتیں گر جانے کی وجہ سے اپنی ڈولتی ہوئی معیشتوں کے باوجود کئی مغربی بینکوں کی مدد کی۔


مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ایکات ووئرٹز نے بتایا، "خلیجی خودمختار دولت کے فنڈز غیر بیوروکریٹک طریقے سے بڑی رقم کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب کام مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ سعودی عرب کے پاس اس وقت نینٹینڈو، اوبر، بوئنگ اور نیو کیسل یونائیٹڈ فٹ بال کلب میں حصص ہیں۔ جون میں، گولف کے عالمی مقابلے پی جی اے ٹور نے سعودی حمایت یافتہ ایل آئی وی گالف کے ساتھ ایک متنازعہ انضمام پر اتفاق کیا۔ انسانی حقوق کے گروہوں نے اس پیش رفت کی مذمت کی تھی۔

پی آئی ایف مستقبل میں ممکنہ طور پر ٹیسلا کی جگہ لینے کی اہل لوسیڈ موٹرز کے تقریباً دو تہائی حصے کا بھی مالک ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں 10,000 سے بھی کم گاڑیاں سالانہ بنانے والی فرم پر سعودی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ نے تقریباً 5.04 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔


ٹیلی کام میں سرمایہ کاری کی تحقیق

گزشتہ ہفتے سعودی ٹیلی کام نے اسپین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ٹیلی فونیکا میں2.1 بلین یورو کی سرمایہ کاری کے ذریعے دس فیصد حصص لینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں ٹیلی فونیکا کی مارکیٹ ویلیو دو تہائی سکڑ گئی ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کے لیے قیمتوں کی جنگ، نئی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری اور نئی منڈیوں میں توسیع نے ہسپانوی فرم کو قرضوں کے ایک بڑے جال میں پھنسا رکھا ہے۔

یو اے ای کی فون کمپنی ای اینڈ (سابقہ ​​اتصالات) نے اس سال ایک اور بڑی یورپی ٹیلی کام فرم ووڈافون میں اپنا حصہ 10 فیصد سے بڑھا کر تقریباً 15 فیصد کر دیا۔ پچھلے مہینے، ای اینڈ نے کہا تھا کہ وہ اپنے حصے میں 20 فیصد تک مزید اضافے پر غور کر رہا ہے۔ ان دونوں سرمایہ کاریوں نے مغرب میں فطری طور پر قومی سلامتی کے خدشات کو جنم دیا ہے کیونکہ خلیجی ریاستیں آمرانہ حکومتیں ہیں جن کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور ان کی آبادی کی بے تحاشا نگرانی ہے۔


اسپین کی قائم مقام نائب وزیر اعظم نادیہ کالوینونے گزشتہ ہفتے اعلان میں کہا تھا، ''اسپین کے اسٹریٹیجک مفادات کے دفاع کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیلی فونیکا کے حصص کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہوگی۔‘‘ میڈرڈ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملکی دفاعی شعبے کے ساتھ ٹیلی فونیکا کے تعلقات کی وجہ سے خاصی محتاط ہے۔

تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک چین نہیں

ووئرٹز نے کہا، ''سعودی عرب چین یا (UR): خلیجی ریاستوں کی... روس کی طرح کے مفادات نہیں چاہتا کیونکہ چین اس ٹیکنالوجی کا تعاقب کر رہا ہے، جو پہلے سے ہی انتہائی حساس مواصلاتی ڈھانچے میں نصب ہے۔ تاہم سعودی عرب کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ وہ چین کی ہواوے جیسی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی تیار نہیں کرتا۔‘‘


ووئرٹز حالیہ برسوں میں امریکہ اور اس کے بہت سے اتحادیوں کی طرف سے ہواوے اور دیگر چینی ٹیک فرموں پر عائد پابندی کا حوالہ دے رہے تھے۔ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ چینی وائرلیس نیٹ ورکنگ آلات میں چور دروازے ہوسکتے ہیں، جو بیجنگ کی نگرانی کوموثر بناتے ہیں۔

اعلی درجے کی چپس کے لیے بھاری سرمایہ کاری

اعلی درجے کی مصنوعی ذہانت زبان کے ماڈلز کی تقویت کے لیے درکار اعلیٰ درجے کے سیمی کنڈکٹرز کی عالمی قلت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی ٹیک کمپنی NVIDIA کے تیار کردہ چپس خرید رہے ہیں۔


دونوں ممالک نے اے آئی ٹیکنالوجیز میں لیڈر بننے کی خواہش کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ بہت سے ٹیک لیڈروں نے متنبہ کیا ہے کہ آمرانہ حکومتیں اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر سکتی ہیں۔ درحقیقت چین کو اپنی 1.4 بلین آبادی کی نگرانی کرنے میں باقی دنیا پر برتری حاصل ہے۔

نگرانی کی مہارت اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات

خلیجی عرب ریاستیں حال ہی میں اپنی نگرانی کی صلاحیت کی وجہ سے سرخیوں میں آئی ہیں۔ 2019 ء میں گوگل اور ایپل نے متحدہ عرب امارات میں ایک مقبول میسیجنگ ایپ TikTok کو اپنے اسٹورز سے ہٹا دیا تھا۔ اس کی وجہ نیویارک ٹائمز کی وہ رپورٹ تھی، جس کے مطابق ٹک ٹاک کو اماراتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے صارفین کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں چینی جاسوسی ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ مغرب کے لیے اضافی سکیورٹی خدشات کا باعث بنے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔