روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی اور خوراک کا بحران خواتین کے لیے نقصان دہ

دنیا بھر میں ایندھن اور خوراک کے بحران اور ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے خواتین کو بھاری نقصان پہنچنے کے قوی امکانات ہیں۔ اس بارے میں ورلڈ اکنامک فورم نے بُدھ کو ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی اور خوراک کا بحران خواتین کے لیے نقصان دہ
روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی اور خوراک کا بحران خواتین کے لیے نقصان دہ
user

Dw

ورلڈ اکنامک فورم کی ایک تازہ ترین ر پورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ روزمرہ زندگی پر آنے والے اخراجات کے بحران کا ایک بڑا نقصان خواتین کو پہنچے گا کیونکہ اس سے عالمی لیبر فورس میں صنفی فرق بڑھے گا۔

ڈاؤوس میں ہر برس عالمی اقتصادی فورم کے انعقاد کے میزبان اس تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جس اقتصادی بحران، مہنگائی اور روزمرہ زندگی کی ضروریات کی اشیاء کی بلند قیمتوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ خواتین پر مرتب ہوں گے۔ مزید یہ کہ اس صورتحال سے پیدا ہونے والے صنفی فرق سے چھٹکارے کی امید نہیں ہے۔ لیبر مارکیٹ میں صنفی امتیاز تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔


کووڈ انیس سے شروع ہونے والا سلسلہ

دسمبر 2019 ء میں چین کے شہر ووہان میں سب سے پہلے دریافت ہونے والے کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دو ڈھائی سال کے اندر اندر دنیا بھر کے ممالک کی اقتصادی، معاشی اور سماجی صورتحال یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔ صحت عامہ اور تعلیم کے شعبے میں عام انسانوں کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا اس کے حقائق سب کے سامنے ہیں تاہم قریب ہر معاشرے میں کورونا سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈانیس پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان کے اثرات بھی سب سے زیادہ خواتین پر ہی مرتب ہوئے۔ لاک ڈاؤن، سماجی فاصلے اور ایسے ہی دیگر قواعد و ضوابط پر چلتے ہوئے اپنی سماجی، گھریلو اور اقتصادی ذمہ داریاں پورا کرنا سب سے زیادہ خواتین کے لیے مشکل تھا۔ ہوم آفس، بچوں کی ہوم لرننگ وغیرہ کے اثرات خواتین کی ذہنی صحت سے لے کر ان کی سماجی صورتحال پر بھی بہت حد تک اثر انداز ہوئے۔

کورونا وبا کے دور میں روزگار کی منڈی میں بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا۔ لیبر مارکیٹ میں صنفی عدم مساوات اس کی ایک بڑی وجہ بنی۔


ایندھن اور خوراک کا موجودہ بحران اور خواتین کے مسائل

ورلڈ اکنامک فورم کے اندازوں کے مطابق موجودہ حالات کو سامنے رکھا جائے تو دنیا میں صنفی برابری لانے میں 132 سال لگیں گے۔ جبکہ 2020 ء میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق اس ہدف کے حصول کے لیے 100سال کا عرصہ لگنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ فورم نے اپنی اس رپورٹ میں چار عوامل کی وضاحت کی ہے جن کا دار ومدار صنفی برابری پر ہوتا ہے۔ تنخواہ اور معاشی مواقع، تعلیم، صحت اور خواتین کو بااختیار بنانے کا عمل۔ ان عوامل پر کون سا ملک کس سطح پر ہے، یہ اندازہ پیش کرنے کے لیے ورلڈ اکنامک فورم نے 146 ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل ایک فہرست تیار کی اس میں مذکورہ چاروں عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس فہرست میں سب سے زیادہ پوائنٹس آئس لینڈ کو حاصل ہیں جس کے بعد متعدد شمالی یورپی ممالک آتے ہیں پھر نیوزی لینڈ، روانڈا، نکاراگوا اور نمیبیا آتے ہیں۔ ایک سو چھیالیس ممالک پر مشتمل اس فہرست میں یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت جرمنی دسویں نمبر پر ہے۔ فہرست پر مزید نیچے دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں، امریکہ 27 ویں چین 102 ویں اور جاپان 116 ویں نمبر پر ہے۔

فورم کی منیجنگ ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی کا کہنا ہے کہ خواتین غیر متناسب طور پر روز مرہ زندگی گزارنے کے بحران سے متاثر ہوئی ہیں۔ وبائی امراض کے دوران لیبر مارکیٹ کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ ساتھ بزرگوں اور بچوں کے نگہداشت جیسے بنیادی ڈھانچے کی کمی نے بھی خواتین کے مساوی حقوق کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔


سعدیہ زاہدی نے مزید کہا،''صورتحال کی کمزور بحالی کے پیش نظر حکومت کو دو اہم زمروں پر توجہ مرکوز کر کہ بہتری کی کوششیں کرنا ہوں گی۔ ورک فورس میں خواتین کو واپس لانے کے لیے اور عورتوں کو مستقبل کی صنعتوں میں کام کرنے کے ٹیلننٹ کو نکھارنے اور مزید تربیت فراہم کرنے کی ممکنہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ بصورت دیگر گزشتہ دہائیوں میں صنفی امتیاز کی مد میں ہونے والی پیش رفت پر حرف آئے گا جب کہ مستقبل کی اقتصادیات میں تنوع کی کوششوں کو بھی زک پہنچے گی۔‘‘

یہ رپورٹ گزشتہ 16 سالوں سے تیار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا مقصد ایسے عوامل کا پتا لگانا ہے جو لیبر مارکیٹ میں صنفی فرق یا صنفی عدم مساوات کا سبب بنتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔