برازیل: منکی پاکس سے خوفزدہ انسانوں کے بندروں پر حملے

برازیل میں بندروں پر انسانوں کے حملوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ منکی پاکس کے بڑھتے کیسز کو ان حملوں کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے برازیل میں منکی پاکس وائرس کے پھیلنے کے خوف سے بندروں پر حملے کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے منگل کے روز جینوا میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ منکی پاکس کا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیل رہا ہے۔"


ہیرس نے یہ بیان برازیل کی نیوز ویب سائٹ جی 1 کی طرف سے اتوار کے روز شائع ان خبروں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ جنوبی ساو پولو ریاست کے ساو جوس ڈو ریوپریٹو شہر میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں 10 بندروں کو زہر دے دیا گیا۔

ہیرس کا کہنا تھا کہ گوکہ اس بیماری کا آغاز جانوروں سے انسانوں میں ہوا لیکن حالیہ دنوں میں یہ بیماری صرف انسانوں کے درمیان پھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "لوگوں کو جانوروں پر کسی بھی صورت میں حملہ نہیں کرنا چاہئے۔"


مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق دیگر شہروں میں بھی بندروں پر حملوں کے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لوگوں نے بندروں پر پتھر برسائے یا انہیں زہر دے دیا۔

منکی پاکس کے کیسز

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق برازیل میں منکی پاکس کے 1700 سے زائد کیسز درج ہوچکے ہیں۔ برازیل کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے 29 جولائی کو ایک شخص کی موت ہوگئی۔


عالمی ادارہ صحت کے مطابق منکی پاکس وائرس کسی متاثرہ شخص کے جسمانی سیال سے یا تنفس اور چھونے والی سطحوں کے ساتھ رابطے دونوں کے ذریعے یا متاثرہ شخص کے استعمال شدہ آلودہ چیزوں سے انسان سے انسان میں پھیل سکتا ہے۔ یہ بیماری بالعموم دو سے چار ہفتے تک رہتی ہے۔ مریض کو بخار، ٹھنڈ، تھکن محسوس ہوتی ہے اور جسم پر دانے نکلتے ہیں۔ دس میں سے ایک مریض کے لیے منکی پاکس خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

بیماریوں کی روک تھام کے یورپی مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں منکی پاکس کے اب تک 13912 کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔ مئی کے بعد سے تقریباً 90 ملکوں نے منکی پاکس کے 29000 سے زائد کیسز کی اطلاعات دی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے اس بیماری کو جولائی میں عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔