یونان اور مسیحیت میں پروگریس کا نظریہ

پروگریس کے نظریے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ کی معلومات ہو اور اسے سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ کے عمل کو گردش کے بجائے سیدھی لائن (Linear) کے طور پر دیکھا جائے۔

یونان اور مسیحیت میں پروگریس کا نظریہ
یونان اور مسیحیت میں پروگریس کا نظریہ
user

Dw

گردش کے نظریے میں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اس لیے اس سے تہذیب کے ارتقاء کا اندازہ نہیں ہو سکتا ہے۔ یونان میں گردش کا نظریہ تھوسیڈیڈیز (Thucydides) کی تاریخ میں بھی ہے۔ لیکن سیدھی لائن پر تاریخی ارتقا یونان کے فلسفیوں نے بیان کیا ہے۔ Hesiod نے اپنی کتاب "Theogony" میں انسان کے ارتقاء کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دور وحشت و بربریت سے مرحلہ وار مہذب بنا۔ ایک اور یونانی مصنف Zenofam نے کہا تھا کہ خدا نے بہت سے راز انسان سے محفوظ کر رکھے ہیں۔ اب یہ انسان کے کام ہے کہ ان منصوبوں کو پورا کرے۔

پروگیس کے بارے میں سو فسطائی( Sophist) فلسفیوں نے بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے مطابق انسان نے مرحلہ وار ترقی کی ہے۔ ابتدائی دور میں وہ علم سے ناواقف تھا، لیکن اس نے فطرت سے یہ سبق سیکھا کہ ہر شے میں تبدیلی اور ترقی ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان مختلف ادوار سے ہوتا ہوا موجودہ دور تک پہنچا۔ ارتقاء کے اسی نظریہ کو افلاطون اور ارسطو نے بھی بیان کیا ہے۔ لہٰذا اگرچہ یونانیوں کو پروگریس کے بارے میں پوری معلومات تو نہیں تھیں مگر اپنی تاریخی معلومات اور مشاہدات کی مدد سے انہوں نے مہذب اور باربیرین کے درمیان فرق کو پیدا کیا اور ساتھ ہی یہ دلیل بھی دی کہ تاریخی عمل ٹھہرا ہوا نہیں ہے، بلکہ یہ مسلسل تبدیلیوں کے ذریعے آگے کی جانب جا رہا ہے۔


یہودیت اور مسیحیت نے پروگریس کو ایک نئی شکل دی گئی۔ کیونکہ یہودی ظلم و ستم کا شکار تھے۔ کیونکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم میں یہودیوں کی عبادت گاہ کو تباہ کر دیا تھا اور ان کے رہنماؤں کو قید کر کے بابل لے گئے۔ اس کے بعد رومیوں نے AD 70 میں دوبارہ سے یہودیوں کو یروشلم سے نکال دیا تھا۔ ان حالات کی وجہ سے عہدنامہ عتیق (Old Testament) میں حال سے مایوس ہو کر یہودیوں نے مستقبل میں سنہری دور کی امید کی ہے کہ جب مسیحا آئے گا تو دنیا میں امن و امان کو قائم کرے گا۔ اسی تصور کو عیسائیت میں مقبولیت ملی کیونکہ رومی سلطنت میں عیسائیوں پر اذیت ناک مظالم کیے گئے تھے۔ اس لیے ان کے ہاں بھی یہ امید تھی کہ مسیحا کے آنے کے بعد دنیا سے ظلم و ستم ختم ہو جائے گا اور امن و امان کے ذریعے خوشحالی آئے گی۔

مستقبل کی اس امید نے لوگوں پر منفی اثرات ڈالے۔ یعنی حالات کو بدلنے اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے تبدیلی کے کام کو مسیحا پر چھوڑ دیا اور خود انسان نے بے عمل ہو کر ظلم و ستم برداشت کرنے کی عادت ڈال لی۔ مسیحیت میں مزید تبدیل اس وقت آئی جب 410 عیسوی میں روم کے شہر کو (Goth) قبیلے نے فتح کر کے اسے رونڈ ڈالا۔ یہ شہر مسیحیوں کے لیے مقدس ہو گیا تھا۔ اس لیے ان میں مایوسی اور ناامیدی کے جذبات پیدا ہوئے کہ آخر خدا نے اس شہر کی حفاظت کیوں نہ کی۔ ان حالات میں پانچویں صدی عیسوی میں St. Augustus نے "City of God" کا نظریہ پیش کیا۔ وہ مستقبل میں کسی سنہری دور سے انکاری تھا۔ اس کے نزدیک دو شہر تھے ایک انسانوں کا بسایا ہوا، جہاں بدعنوانیاں اور ناانصافیوں کا دور دورہ تھا اور دوسرا (City of God) جہاں انسان امن و امان خوشحالی اور بھائی چارے کے ساتھ رہے گا۔ City of God انسانی تہذیب و تمدن کی آخری منزل ہو گی۔


عہدے وسطیٰ میں پروگریس کا نظریہ ایک بار پھر فلسفیوں اور سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ روجر بیکن (Roger Bacon) جو ایک فلسفی اور سائنس دان تھا۔ اس نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ انسان مستقبل میں اتنی ترقی کرے گا اور گاڑیاں بغیر جانوروں کی مدد سے چلا کریں گی اور انسان فضائی سفر بھی کر سکے گا۔ یہ پیشن گوئی اس بات کا مظہر تھی کہ عہد وسطیٰ میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایجادات ہو رہی تھیں۔ اس لیے یہ امید کی جا رہی تھی کہ ان کی مدد سے سوسائٹی میں ترقی ہو گی اور انسان اپنے ذہن اور عقل سے سوسائٹی کو بدلے گا۔

رینے ساں کے آتے آتے سنہری دور یا (UTOPIA) کے تصور میں تبدیلی آئی۔ جب تھومس مور (1478-1535) نے (UTOPIA) نامی کتاب لکھی۔ یہ یہودیت اور عیسائیت کے سنہری دور سے مختلف تھی۔ اس میں انہوں نے ایک ایسی سوسائٹی کا نقشہ کھینچا ہے، جو انسانی تہذیب کی تکمیل کرتا ہے۔ لیکن یہ یوٹوپیائی سوسائٹی عملی طور پر کہیں قائم نہیں ہوئی۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان نے اتنی صلاحیتیں اور ذہانت ہے کہ وہ اپنے حالات کو تبدیل کرے یا بے بسی کے ساتھ فرضی جنت کی امید میں غربت و افلاس اور محرومیوں کو برداشت کرتا رہے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔